اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری کلام و الہام قرآنِ مجید کی صورت میں نازل فرمایا۔ 28ویں پارے کی ایک صورت ہے: سورۃ الحشر‘ اس کی آیت نمبر21۔ میں نے اس آیت کے صرف ایک لفظ کیلئے عربی زبان کی شہرہ آفاق ڈکشنری ”لسان العرب‘‘ کھولی تو میرے جسم کے ایک ایک خلیے اور دماغ کے ایک ایک نیورون میں حشر بپا ہو گیا۔ دماغ کے نیورونز کی تعداد کوئی80 ارب ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ تعداد سارے جسم کے خلیات کی ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ اپنے قارئین کو بھی اس علمی و سائنسی میدان میں لے جائوں۔ یہ میدان قرآنِ مجید کی بلاغت کا میدان ہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں ”میرے حبیبﷺ! اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اس (پہاڑ) کو دیکھتے کہ وہ اللہ کی ہیبت سے اس قدر سہما ہوتا کہ پھٹ کر ذرات میں تبدیل ہو جاتا۔ ایسے مثالی حقائق ہم (اہلِ علم) کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غورو فکر (تحقیق و ریسرچ) کریں‘‘ (الحشر: 21)۔
قارئین کرام! آپ نے ترجمہ ملاحظہ کیا۔ میں نے عربی لغات کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا مگر ترجمے کا حق کسی حد تک تب ادا ہوگا جب دوسرے لفظ کی حقیقت کو مزید کھولوں؛ چنانچہ ”خاشعاً‘‘ کا ترجمہ کرکے میں نے ”متصدعاً‘‘ کا لفظ دیکھنے کیلئے امام جمال الدین کی ڈکشنری ”لسان العرب‘‘ کو دوبارہ کھولا تو وہاں اس لفظ کی شرح کیلئے ایک حجازی شاعر کا شعر پڑھنے کو ملا۔ اس حجازی شاعر کا نام ”قیس بن ذریح‘‘ ہے۔ ان کا حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ دودھ کا رشتہ بنتا ہے یعنی وہ حضرت امام حسینؓ کے رضاعی بھائی ہیں۔ ان کے شعر کا ترجمہ اور مفہوم کچھ اس طرح ہے ”میری اندرونی حالت سے بے خبر‘ دور کھڑے ہونے والے‘ اے میرے دوست! تجھے کیا بتائوں کہ مجھ پر سختی اور مصیبت کا جو پہاڑ ٹوٹا ہے اس سے میرے جگر کے درد کا یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ پھٹ کر کھڑکی سے اُڑ گیا ہے۔ ہائے افسوس! اس صدمے نے دل کو ایسے کر دیا کہ جیسے دشمن کی زمین میں کوئی لشکر داخل ہو جائے تو وہ وہاں کے باسیوں کو تہس نہس کر دیتا ہے‘‘۔
قیس بن ذریح کے مندرجہ بالا شعر کے بارے میں امام جمال الدین لکھتے ہیں کہ شاعر اپنے شعر میں اس حقیقت کی جانب گئے ہیں کہ پہاڑ کا ہر حصہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے‘ اس قدر ٹکڑے ٹکڑے کہ ہر ذرے کا ایک حصہ دوسرے حصے سے علیحدہ ہو کر نمایاں ہو گیا ہے۔ وہ دیکھنے والے کو اس طرح نظر آ رہا ہے جیسے شفاف شیشے میں چیزیں نظر آتی ہیں۔ قارئین کرام! میں نے عربی جملے لکھنے سے احتیاط کی کہ عالم اس کا متحمل نہیں مگر اہلِ علم کیلئے امام جمال الدین کا ایک جملہ لکھنا ضروری خیال کرتا ہوں تاکہ اہلِ علم کو قرآن کی عظمت کا احساس ہو سکے۔ وہ لکھتے ہیں:
”تَأوِیلِ الصَّدْعِ فی الزُّجاَجِ اَن یَّبیْنَ بَعضٔہ مِنْ بَعْضٍ‘‘
اللہ اللہ! عربی کس قدر عظیم زبان ہے اور ہمارے شعرا کس قدر عظیم دماغ رکھتے تھے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل وہ شیشے کی بات کرتے ہیں تو شیشہ دوربین کا ہے جس میں پہاڑ کے ذرات یعنی ایک ایک ایٹم نظر آ رہا ہے۔ کوانٹم بیس پر ذیلی ذرات دکھائی دے رہے ہیں حتیٰ کہ وہ کوارکس تک چلے گئے ہیں۔ کوارکس کے اَپ اینڈ ڈائون کو ڈِسکور کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سطح پر ذرات لہروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں بلکہ لہروں سے بھی کہیں آگے کی کوئی نامعلوم صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کیفیت کو آج کی ترقی یافتہ سائنس ابھی بیان کرنے سے قاصر ہے۔ قرآنِ مجید جگہ جگہ یہ بتلاتا ہے کہ ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح کرتا ہے مگر اے انسانو! تم اس ورد کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ اس سے معلوم ہوا پہاڑ شعور رکھتے ہیں۔ تبھی تو حضورﷺ نے فرمایا تھا ”اُحد ایسا پہاڑ ہے کہ جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘ (بخاری: 4422)۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت حضور کریمﷺ اُحد پہاڑ پر کھڑے تھے اور آپ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما موجود تھے (ح: 3675)۔ اس سے واضح ہو گیا کہ پہاڑ شعور رکھتے ہیں‘ ان کا ذرہ ذرہ شعور رکھتا ہے۔
جی ہاں! خلیاتی زندگی کے مقابلے میں ایٹمی زندگی کو مردہ کہا جاتا ہے مگر ایٹمی ذرات کی دنیا بھی شعور کی حامل ہے۔ دنیا میں آج آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے چرچے ہیں۔ مصنوعی ذہانت بہت آگے جا چکی اور چوکڑیاں بھرتے ہوئے آگے جا رہی۔ کوانٹم کمپیوٹر کی بھی آمد آمد ہے‘ اس ذہانت کے تذکرے قرآنِ مجید میں جگہ جگہ ہیں۔ میں نے ابھی قرآنِ مجید اور حدیث شریف کا صرف ایک ایک مقام دکھایا ہے۔
غزہ میں ایک ہزار مساجد‘ تین تاریخی چرچ‘ تین سو سے زیادہ تاریخی ورثے کی حامل عمارتیں‘ سکول‘ یونیورسٹیاں اور ہسپتال وغیرہ‘ سب تباہ ہو چکے ہیں۔ علم تو انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے‘ اس سارے ورثے کو ختم کیا گیا ہے۔ نایاب مخطوطات‘ علمی لیبارٹریوں اور تاریخ کے نادر ورثے کو ختم کیا گیا ہے۔ یہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ تھا جسے نابود کر دیا گیا اور تاحال نابود کیا جا رہا ہے۔
میں نے سراسر رحمت بن کر آنے والی عظیم ہستی پر نازل ہونے والے قرآنِ پاک کو کھولا تو مولا کریم نے ارشاد فرمایا ”وہ لوگ جنہیں (ظلم و جبر) کے ساتھ ان کے گھروں سے نکال دیا گیا‘ بغیر حق کے (ناجائز طور پر) نکالا گیا‘ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ یاد رکھو! اگر اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ایسے لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دور نہ کرے تو تارک الدنیا لوگوں کے عبادت خانے‘ گرجے‘ یہودی عبادتگاہیں اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی کی مدد کرتا ہے جو اس کے (پُرامن نظام) کی مددکرتے ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ لامحدود قوت کا مالک اور خوب خوب (ہر ایک پر) غالب ہے‘‘(الحج: 40)۔
افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام عالمی ادارے اور تنظیمیں گزشتہ چھ ماہ سے غزہ کی بربادی کو روکنے میں ناکام ہیں۔ 31 ہزار انسان شہید کیے جا چکے‘ آٹھ ہزار عورتیں‘ ہزاروں معصوم بچے اور بے گناہ لوگوں کو ملبوں میں سسکتا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو بچ گئے ہیں انہیں بھوک اور پیاس سے مارا جا رہا ہے‘ کیمپوں میں مارا جا رہا ہے‘ امداد کے منتظر افراد کو مارا جا رہا ہے۔ میں صدقے قربان جائوں قرآنِ مجید کی عظمت پر کہ موجودہ حالات میں قرآن کے مندرجہ بالا فرمان کو اقوام عالم کا باہمی نظام بنانا فرض ہو گیا ہے۔ درود و سلام اس عظیم ہستی حضور نبی کریمﷺ پر‘ اس تعداد میں کہ جس قدر کائنات کی بیالوجیکل زندگی کے خلیات‘ نیورونز اور Snipes ہیں‘ مادی دنیا کے ذیلی ذرات ہیں‘ نباتاتی دنیا کے پتے‘ پھول‘ پھل اور ان کے خلیات ہیں کہ آپ پر ایسی کتاب نازل کی گئی کہ جس میں تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کا تذکرہ اور ان کے تحفظ کی بات پہلے کی گئی جبکہ مساجد کی بات آخر پر کی گئی۔
حضور نبی کریمﷺ کے قرآنِ مجید میں ان مسجدوں کو آخر میں رکھا گیا کہ جن میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے عبادت کرتے ہیں۔ ایسا پُرامن دین اور کہاں ملے گا؟ نہیں ملے گا! کیونکہ یہ آخری دین ہے‘ انسانیت کو امن دینے کا دین ہے۔آخر پر میں اپنے بے پناہ دکھ کا اظہار کرنے لگا ہوں۔ مجھے میرے دوست قاری عمر جٹھول بھی احساس دلاتے ہیں کہ پاک فوج کے سات افسر اور جوان دہشت گردی کے حملے میں شہید ہو گئے۔ پاک وطن کے محافظوں کی شہادت پر ان کے پاسبان جنرل عاصم منیر صاحب سے تعزیت‘ سب کے لواحقین سے تعزیت کہ اللہ تعالیٰ سب شہدا کو جنت الفردوس کے بالا خانے عطا فرمائے۔
لوگو! یہ ہیں وہ سانحات جو اہلِ اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ ہمارے پُرامن اسلام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہجومی بلوے بھی میرے پاک وطن میں یہی کچھ کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مذہب کے نام پر یہ حرکتیں مذہب کو مزید بدنام کرتی ہیں۔ ہر سطح پر ان کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ پاک وطن کی ہر جان محفوظ ہو۔ پُررحمت مہینے میں پُررحمت قرآن اور پُررحمت رسول گرامیﷺ کا یہی پیغام ہے۔ پیغامِ پاکستان پر عملی کردار کی دعا ہے اے مولا رحمان۔
تحریر:مولانا امیرحمزہ
Leave a Reply