اللہ کے آخری رسول حضور کریمﷺ ہمارے موجودہ جہان کیلئے بھی سراسر رحمت ہیں اور مرنے کے بعد اگلے جہان میں بھی سراسر رحمت ہی رحمت ہیں‘ یوں آپﷺ کا مبارک وجود ”رحمتِ دو جہان‘‘ ہے۔ ان دو جہانوں کے بہت سارے ادوار ہیں‘ انسانی زندگی کے بہت سارے پہلو ہیں۔ انسانی تاریخ اپنے پہلو میں جنگ و جدل کے لاتعداد ادوار لیے ہوئے ہے‘ ان سب کیلئے آخری رسول گرامیﷺ کی سیرت ‘رحمت ہی رحمت‘ ہے۔
آج کل دنیا میں عالمی جنگ کی بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پر بعض لوگ مزے لے لے کر تیسری عالمی جنگ کی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے ان کے ناظرین کی تعداد بڑھتی ہے‘ پیسے خوب ملتے ہیں۔ کوئی امن کی بات کرے‘ کوئی انسانیت کیلئے ہمدردی اور رحمت کی بات کرے‘ امن اور صلح کی بات کرے‘ ایسے لوگ انتہائی کم دکھائی دیں گے۔ میں نے رہنمائی کیلئے صحیح بخاری کو کھولا۔ اپنے سامنے ”کتاب الجہاد‘‘ کو پایا۔ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ ایک باب لائے ہیں اور فرمانِ رسولﷺ کے ایک حصے کو اس باب کا عنوان بنایا ہے۔ ترجمہ یوں ہے ” دشمن سے جنگ کی خواہش مت کرو‘‘۔ امام بخاریؒ اس عنوان کے تحت تین احادیث لائے ہیں۔
یاد رہے! حضور کریمﷺ جنگ کے میدان میں ہیں‘ سامنے دشمن موجود ہے‘ ابھی معرکے کا آغاز نہیں ہوا‘ سارا دن بیت گیا اور شام پڑ گئی۔ مغرب کی نماز کے بعد حضورﷺ نے اہلِ لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی جنگی پالیسی کا جو اعلان فرمایا‘ اب وہ ملاحظہ ہو ”اے لوگو! دشمن سے مقابلہ (جنگ) کرنے کی خواہش مت کرو بلکہ اللہ سے درخواست (دعا) کرو کہ اس سے محفوظ رہیں۔ ہاں! جب ان دشمنوں سے جنگ ہو جائے تو ڈٹ جائو‘‘ (بخاری: 3025، مسلم: 1742)۔ اللہ اللہ! ہمارے حضورﷺ انسانیت کو سلامتی دے رہے ہیں۔ آپﷺ انسانیت کیلئے سراسر رحمت ہیں۔ آپؐ کے پُررحمت وجود سے انسانیت کو امن ملتا ہے۔ اسی لیے اکثر مفسرین اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ جہاد و قتال اسلام کے بنیادی اراکین میں سے نہیں ہیں بلکہ یہ تو فتنہ و فساد اور ظلم کے خاتمے کا ایک ذریعہ ہیں۔ جیسے ملک کے اندر ڈاکوئوں‘ قاتلوں‘ دہشت گردوں وغیرہ کو سزائیں دی جاتی ہیں تو یہ سزائیں کمزوروں پر ظلم و زیادتی کو روکنے کیلئے ہیں‘ یعنی یہ سزائیں امن اور سلامتی کا ذریعہ ہیں۔ اسکے علاوہ انکا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اصل مقصد جو بنیادی اور اساسی ہی نہیں بلکہ دائمی ہے‘ وہ ہر انسان کی دنیاوی اور اخروی کامرانی ہے اور یہ مقصد دعوت و تبلیغ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ ہمہ وقت جاری و ساری رہتا ہے۔
1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو آسٹریا کے ولی عہد اور ان کی اہلیہ کے قتل سے اس کا آغاز ہوا۔ جناب فرانز فرڈیننڈ امن پسند خیالات کے حامل تھے۔ سربیا سے مطالبہ کیا گیا کہ واقعے میں ملوث دہشت گردوں کو سزا دی جائے۔ جب ایسا نہ کیا گیا تو ایسی جنگ شروع ہوئی کہ عالمی جنگ بن گئی اور چار سال سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔ کروڑوں لوگ اس جنگ میں مارے گئے۔ اس میں آج کیلئے سبق یہ ہے کہ ہر ملک دہشت گردوں کو لگام دے اور یہ کہ سلامتی کے علمبردار رہنمائوں کے مظلومانہ قتل سے خیر نہیں بلکہ بربادی مقدر بنتی ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دوسری عالمی جنگ‘ جو 1939ء میں شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہوئی‘ اسکا بیج اُسی وقت بو دیا گیا تھا جب پہلی عالمی جنگ کے فاتحین نے شکست خوردہ جرمنی پر غیر انسانی اور ذلت آمیز شرائط مسلط کی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جرمن قوم کے اندر ہٹلر جیسا سیاستدان نمودار ہوا جس نے جرمن قوم کی آزادی‘ عزت اور عظمت کا اعلان کیا۔ وہ بارہ سال تک حکمران رہا اور انتہائی پاپولر لیڈر تھا مگر قوم پرست اور انتہاپسند تھا؛ چنانچہ اس نے قوت پکڑ کر یورپ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ یوں یہ جنگ بھی عالمی جنگ بن گئی اور اس میں پہلے سے بھی زیادہ یعنی چھ سالہ عالمی جنگ میں آٹھ کروڑ انسان مارے گئے۔ 24کروڑ کے قریب معذور‘ زخمی اور اپاہج ہوئے۔ کروڑوں بچے یتیم اور کروڑوں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ ان دونوں جنگوں سے انسانیت نے سبق یہ سیکھا کہ تمام ملکوں کا مشترکہ ادارہ اقوام متحدہ وجود میں آیا‘ سب اسکے ممبر بن گئے۔ بادشاہان‘ صدور‘ وزرائے اعظم‘ چانسلرز اور سلاطین وغیرہ کے ناموں سے جو بھی حکمران تھے‘ وہ سب اکٹھے بیٹھنے لگ گئے۔ مقبوضہ ملک آزاد ہو کر اقوام متحدہ کے ممبر بن گئے۔ باہمی اشتراک بڑھ گیا۔ جی ہاں! البتہ علاقائی جنگیں جاری رہیں مگر عالمی سطح پر انسانیت محفوظ رہی۔
افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر ایک اور عالمی جنگ کا بیج سرزمین فلسطین میں بھی بویا گیا‘ یعنی صہیونیوں کی آباد کاری شروع کر دی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے تک یہ بیج درخت بن چکا تھا اور اسکے خاتمے کے محض ڈھائی‘ تین سال بعد اس وقت صہیونی درخت غرقد کو پھلدار بنا دیا گیا جب یہاں اسرائیل کے نام سے ایک ملک بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اسی غرقد درخت کی وجہ سے پون صدی بعد آج پھر دنیا ایک عالمی جنگ کے کنارے پر کھڑی ہے۔ اب کہ یہ جنگ اس قدر ہولناک دکھائی دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اہلِ غزہ پر جو ظلم ڈھایا ہے‘ دنیا بھر کی انسانیت نے شدید ترین مذمت کیساتھ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری زمین کی انسانیت ایک ہے اور امن و سلامتی کی علمبردار اور طلبگار ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے دیس فلسطین کو آزاد ریاست کہ جس کا دارالحکومت القدس شریف ہے‘ قرار دینے کے دو معاہدے کیے گئے مگر نہ صرف یہ کہ ان پر عمل نہیں ہوا بلکہ اسرائیل نے اہلِ فلسطین کو متواتر حالتِ جنگ میں رکھا۔ اس جاری جنگ میں مظلوم فلسطینی لوگوں نے 7 اکتوبر کو جو حملہ کیا‘ چھ ماہ کے بعد اب اسرائیلی ظلم اور مظلوموں کی مزاحمت کی وجہ سے دنیا تیسری عالمی جنگ کی دہلیز پر کھڑی ہو گئی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے سامنے اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ جب جنگ مسلط ہو جائے تو پھر ڈٹ جائو‘ صابر بن جائو۔
آج محترم اسماعیل ہنیہ نے اس پر عمل کا جو ثبوت فراہم کیا وہ اللہ کی قسم! انتہائی لاجواب اور باکمال ہی نہیں‘ باجمال بھی ہے۔ قرآنِ مجید کے الفاظ میں ”صبرِ جمیل‘‘ کا شاہکار ہے۔ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کی فیملی کی گاڑی کو میزائل کا نشانہ بنایا جس میں انکے تین بیٹے حازم‘ محمد اور امیر شہید ہو گئے۔ چار پوتے خالد‘ رزّان‘ منیٰ اور آمال شہید ہو گئے۔ محمد کی چھ سالہ بچی‘ جس کا نام ملاک تھا‘ شدید زخمی ہو گئی۔ غزہ میں علاج میسر نہ ہونے کی وجہ سے تین چار دن بعد وہ بھی شہید ہو گئی۔ اسماعیل ہنیہ کو جب تین بیٹوں اور چار پوتوں کی شہادت اور پوتی ملاک کے زخمی ہونے کی اطلاع دی گئی تو دنیا نے دیکھا کہ انکی زبان پر ”لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کا کلمہ اور چہرے پر صبرِ جمیل کا باکمال نور تھا۔ انہوں نے کہا: میرے ہزاروں شہید بیٹوں اور بیٹیوں میں اللہ کے حضور شہادت کی یہ بھی ایک قربانی ہے‘ ہمارا عزم مضبوط ہے‘ جدوجہد جاری رہے گی۔ اسماعیل ہنیہ نے حضور نبی کریمﷺ کی مبارک حدیث پر عمل کر کے دکھایا ہے۔
جب دنیا جنگی حالت سے دوچار ہے تو ایسے میں ہم اہلِ پاکستان کا فرض ہے کہ باہمی اختلافات کو بھلا کر… بھلا نہیں سکتے تو معطل کر کے مضبوط قوم بن جائیں۔ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے والے سچے پاکستانی بن جائیں۔ اپنے محافظ بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ ایسی مضبوط صف بندی کر لیں کہ کوئی رخنہ نہ رہے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے‘ اس کی سالمیت میں صرف ہماری ہی نہیں‘ اہلِ فلسطین اور اہلِ کشمیر کی سالمیت بھی وابستہ ہے۔ خواہش ہے کہ میرے پاک وطن کی حکمرانی آگے بڑھے۔ انسانیت کو نئی عالمی جنگ سے بچانے کی جدوجہد کرے۔ اس قدر کہ جیسے رحمت دو جہاں رسول کریمﷺ نے فرمایا ‘جنگ خواہش مت کرو‘ اس خواہش کے خاتمے میں ہمارا کردار ہو جائے‘ آمین یا رب العالمین!
تحریر :مولانا امیر حمزہ
Leave a Reply