اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو ”بنی اسرائیل‘‘ کا لقب دیا‘ یعنی اللہ کے بندے (یعقوب علیہ السلام) کی آل اولاد۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شدت پسند بنتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کے ذریعے ان کی شدت پسندی سے مسلم امت کو آگاہ کیا۔ ارشاد فرمایا”(اے بنی اسرائیل گائے سے مردہ زندہ کرنے کا معجزہ بھی تم نے دیکھ لیا) مگر اس کے بعد بھی تمہارے دل اس قدر سخت ہو گئے کہ پتھروں جیسے ہو گئے بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر سخت۔ حالانکہ پتھریلی چٹانوں میں بھی (بعض) ایسے پتھر ہیں کہ ان سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور بعض پتھر تو ایسے ہیں کہ جب وہ پھٹتے ہیں تو ان سے پانی پھوٹ نکلتا ہے۔ بعض ایسے بھی پتھر ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ جو تم حرکتیں کر رہے ہو یاد رکھو اللہ ان سے بے خبر نہیں ہے‘‘ (البقرہ: 74)۔
قارئین کرام! قرآنِ مجید کی ابتدائی سورت میں یہود کی شقاوتِ قلبی کو ملاحظہ کریں اور پھر غزہ کے نہتے مسلمانوں پر ان کا ظلم دیکھیں۔ ساری دنیا کے انسان دہائیاں دے رہے ہیں‘ احتجاج کر رہے ہیں کہ اس ظلم کو بند کیا جائے مگر اسرائیل کا وزیراعظم اور اس کی فوج عورتوں‘ بچوں اور بے بس بزرگوں اور جوانوں کے قتل سے باز نہیں آ رہی۔ قرآن مزید بتلاتا ہے کہ ان کی شقاوت اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سارے رسول اور نبی بھیجے مگر انہوں نے نہ صرف ان کی نافرمانی کی بلکہ ان کو شہید کرنا بھی شروع کردیا۔
بنی اسرائیل کے جانب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”ہم نے رسولوں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا۔ انہیں انجیل عطا فرمائی جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحمت رکھ دی‘‘(الحدید: 27)۔قارئین کرام! یہود کی پتھر دلی اور مسیحی لوگوں کی رحم دلی کا موازنہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ایک ہی آیت میں کس خوبصورت حقیقت کے ساتھ کیا ہے‘ ملاحظہ ہو۔ ”(اے رسول) آپ تمام انسانوں میں مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ان لوگوں کو دیکھیں گے جو یہودی ہیں۔ (ان کے بعد) وہ لوگ جنہوں نے (بت پرستی کا) شرک کیا۔ آپ ان تمام(غیر مسلم لوگوں میں) رحم دلی کے اعتبار سے مسلمانوں کے قریب ترین ان لوگوں کو دیکھیں گے جنہوں نے کہا کہ ہم نصرانی (مسیحی) ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں بعض پڑھے لکھے علما ہیں اور کچھ( تارک الدنیا) راہب ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ لوگ تکبر نہیں کرتے‘‘(المائدہ: 82)۔
قارئین کرام! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے درخواست کی تھی کہ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ آسمان سے دستر خوان نازل ہو جائے تو یہ دن ہمارے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے عید کا دن بن جائے۔ یہ تذکرہ سورۃ المائدہ میں ہے۔ المائدہ کا معنی ہی دستر خوان ہے۔ اس سورۃ کی آخری آیت مسیحی لوگوں کی خدا ترسی کو ظاہر کرتی ہے۔ قرآن مجید نے مسیحی دنیا کے علما کو قسیس (رحم دل اور شب بیدار ) فرمایا ہے۔
چند دن قبل سرگودھا کی مسیحی برادری پر قرآنِ مجید کی توہین کا الزام لگا۔ مساجد سے لائوڈ سپیکروں پر اعلانات ہوئے۔ ہجوم اکٹھا ہو گیا اور پھر چرچ کو آگ لگا دی گئی۔ مقدس بائبل کو جلایا گیا‘ مسیحی برادری کے گھروں کو لوٹا اور جلایا گیا۔ میں نے مندرجہ بالا جملے اختصار سے لکھ دیے ہیں۔ مقامی صحافیوں نے تفصیل کے ساتھ اس واقعے کی سنگینی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک مسیحی عالم نے اپنے ویب چینل پر انجیل مقدس کی ایک آیت کو پڑھا۔ میں نے بائبل کھولی‘ یہ انجیل متی (Gospel of Matthew) کا دسواں باب‘ آیت نمبر 16ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں اور مبلغین کو ایک نصیحت فرماتے ہیں۔ ”دیکھو! میں تمہیں بھیجتا ہوں۔ گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں۔ پس سانپوں کی مانند ہوشیار اور کبوتروں کی مانند بے آزار ( صبر سے تکلیف سہنے والے) بنو‘‘۔ اب مسیحی عالم اس آیت کی شرح کرتا ہے اور اپنے پاکستانی مسیحی بھائی بہنوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے کہ جڑانوالہ‘ لاہور‘ خانیوال وغیرہ میں کئی واقعات ہوئے آپ نے صبر سے کام لیا۔ انجیل ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ ہم بھیڑیوں میں بھیڑ ہیں۔ سانپ کے ساتھ مسیحی بھیڑوں کی تشبیہ جزوی ہے۔ سانپ کے کان نہیں ہوتے‘ اس کی کھال خطرے کو بھانپ لیتی ہے کیونکہ اس کی کھال پر ایسے سنسرز ہوتے ہیں جو زمین اور فضا کے ذریعے تھرتھراہٹ کی لہروں کو محسوس کرکے چوکنا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا چوکنے رہو۔ کردار کبوتروں کی طرح پُرامن اور صبروالا ہو۔ تم سے کسی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ ساتھ ہی قسیس یہ حقیقت بھی بتاتا ہے کہ ہمارے پاکستان کی حکمرانی ایسے ہے کہ جب تک احتجاج نہ ہو حق نہیں ملتا۔ بھارت میں بھی مسیحی برادری پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں مگر پاکستان میں کم از کم ایسے حالات نہیں ہیں۔
اے حکمرانانِ پاکستان! سپیشل برانچ پولیس کا انٹیلی جنس ادارہ ہے‘ اس کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ ایک ایسے گروہ کا انکشاف ہوا ہے جو مختلف اضلاع میں اقلیتی افراد پر توہین کے جھوٹے مقدمات درج کراتا ہے اور پھر مقدمات ختم کرانے کے پیسے لیتا ہے۔ اس رپورٹ کا تقاضا ہے کہ مقدمات درج کرانے والوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور اس عمل پرسخت سزا دی جائے۔ بلوے کرنے اور کرانے والے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں‘ انہیں آج تک سزا نہیں ملی۔
سرگودھا کا واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر کے مسیحی لوگ غزہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یورپ کے جن ملکوں نے فلسطین کو بطور آزاد مملکت تسلیم کرنے کیا ہے ان میں سپین‘ آئرلینڈ اور ناروے کے بعد اب چوتھا ملک سلووینیا بھی شامل ہو گیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور سکولوں کے طلبہ اور طالبات فلسطینی رومال اوڑھے‘ فلسطین کا جھنڈا اٹھائے متواتر اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ کیوں اسرائیل جیسی ظالم حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں۔ یواین کے سیکرٹری جنرل‘ جو پرتگالی مسیحی ہیں‘ اہلِ غزہ کی حمایت اور جنگ بندی کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ جنوبی افریقہ عالمی عدالتِ انصاف میں کروڑوں ڈالر کا خرچہ کرکے اہلِ غزہ کا مقدمہ لڑ کر اسرائیل کے وزیراعظم‘ وزیر دفاع اور اسرائیلی فوج کے سینئر افسران کے وارنٹ جاری کرا چکا ہے کہ ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟
ہمارے حضور نبی کریمﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ آپﷺ ختم المرسلین ہیں۔ صدقے قربان جائوں‘ آپﷺ پر جو قرآن نازل ہوا‘ اس نے کس قدر حق اور عدل کے ساتھ یہود کی شقاوت کو آشکار کیا۔ وہ شقاوت آج بھی جاری ہے۔ مسیحی دنیا کے علما اور عام لوگوں کی نرم دلی اور اہلِ اسلام کے ساتھ مؤدت کی جو بات قرآن نے کی‘ وہ آج بھی جاری ہے۔ یہ قرآن کی حقانیت کی دلیل ہے۔ یہ ہمارے آخری رسولﷺ کی حقانیت اور عادلانہ رحمت کی دلیل ہے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے مٹھی بھر لوگ اپنے دین کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہیں اور وطن عزیز کی بدنامی کا بھی۔ پچھلے تمام واقعات اور سرگودھا واقعہ کے مجرموں کو جب تک ہماری حکمرانی سرعام سزا نہ دے گی‘ ہم پر انگلیاں اٹھتی رہیں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی اور فتنہ و فساد پر جس طرح پوری قوم متحد ہوئی اور ان کے خلاف آپریشنز جاری ہیں‘ اسی طرح اقلیتوں پر ہونے والے سانحات پر بھی اقدامات کیے جائیں تاکہ پتھر دل شقاوت کا خاتمہ ہو۔
تحریر:مولانا امیرحمزہ
Leave a Reply