حکمرانی کی اساس اور بنیاد کیا ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”(قسم ہے) آسمان (کی) جسے (رحمن) نے رفعت عطا فرمائی اور (رحمن نے ہی وہاں) ترازو قائم کیا‘‘ (الرحمن: 7)۔ خلا میں ترازو کا انکشاف موجودہ سائنسی زمانے میں ہوا ہے۔ زمین جب سورج کے مدار میں گردش کرتی ہے تو جہاں سے اس کی گردش کا آغاز ہوتا ہے وہاں اس کے دائیں بائیں دو پلڑے ہیں۔ مدار کے اندر جو پلڑا ہے اسے Lagrange Point-1 (L1)کا نام دیا گیا ہے۔ جو پلڑا مدار کے باہر ہے وہ پوائنٹ نمبر 2 ہے۔ پورے سال بعد زمین واپس L1 اور L2 کے درمیان ہوتی ہے۔ لوگو! اس ترازو میں ہلکا سا فرق واقع ہو جائے تو زمین پر زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ اب اگلی دو آیات میں اہلِ زمین کیلئے قرآن کا پیغام ملاحظہ ہو! ”(اے زمین والو!) تم بھی میزان کے نظام کو برباد نہ کرنا۔ وزن (کی ذمہ داری اور امانت) کو انصاف کے ترازو میں سیدھا رکھو اور تول میں کمی نہ کرو‘‘ (الرحمن: 8 تا 9) اللہ اللہ! مندرجہ بالا تینوں آیات کا اختتام ”میزان‘‘ پر ہوتا ہے۔ اسکے بعد زمین اور اس پر پھیلی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ پیغام یہ ہے کہ یہ نعمتیں عدل وانصاف کے ترازو کیساتھ ملیں گی۔ آئیے! اب ہم اپنے وطن عزیز میں اپنے حکمرانوں کے ترازو کی ایک جھلک ملاحظہ کرتے ہیں
!
ہم دونوں کی عمر 65 سال ہے۔ اسلامی‘ انسانی اور پاکستانی رشتوں کے حوالے سے ہم دونوں بھائی ہیں۔ میرے بھائی صاحب فوجی افسر بھی رہ چکے ہیں اور پھر بطور ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اب وہ اپنی سوسائٹی کی مسجد انتظامیہ کے صدر ہیں‘ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے دبنگ وکیل بھی۔ میں ان کی مسجد میں درس دینے گیا۔ درس کے بعد ان کے گھر میں ضیافت کا اہتمام تھا۔ اس ملاقات میں وہ اپنی زندگی کی پرتوں کو ایک ایک کرکے ہٹاتے چلے جا رہے تھے۔ اُن کے والدین اَن پڑھ تھے مگر انہیں علم حاصل کرنے کا جنون تھا۔ انہوں نے سائنس کے ساتھ میٹرک میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی جبکہ کبڈی کے پہلوان بھی تھے ۔ اسی دوران ان کا ایک دوست سعید قتل ہو گیا۔ کھڈیاں کے قریب گائوں میں ان صاحب کا خاندان مقامی سیاست میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اب مخالف پارٹی کو موقع ملا تو انہوں نے ان کو بھی قتل میں ملوث کرا کے پولیس کا چھاپہ پڑوا دیا۔ یہ گھر سے بھاگ کر اپنے خالو کے پاس آ گئے۔ خالو پاک فوج میں صوبیدار تھے‘ انہوں نے ان کو بھی فوج میں سپاہی بھرتی کرا دیا۔ تھانیدار نے ان کے ورثا سے کہا: سب لوگ آگاہ ہیں کہ عبدالغفور بے گناہ ہے مگر مخالفین کے اصرار پر ہم بھی دبائو میں ہیں۔ آپ کچھ رقم کا بندوبست کریں‘ مخالفین کے ساتھ آپ کی صلح کرا دی جائے گی۔ بعد میں اصل قاتل پکڑے گئے۔ یہ مقتول سعید کے رشتہ دار ہی تھے جنہوں نے حسد میں بے گناہ نوجوان کو قتل کیا تھا۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی عبدالغفور نے وطن عزیز میں حکمرانی کے میزان کو ہچکولے کھاتے اور ڈگمگاتے ہوئے دیکھ لیا۔
یہ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا۔ ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے موضوع پر تقریری مقابلہ ہوا۔ سپاہی عبدالغفور کی پوزیشن اول تھی۔ علمی ذہانت بھانپتے ہوئے جے سی او ایجوکیشن ملک محمد عبداللہ نے سفارش کر دی کہ عبدالغفور کو ایف اے کیلئے پشاور ایجوکیشن سکول بھیج دیا جائے۔ عبدالغفور سپاہی نے آرمڈ فورسز بورڈ فار ہائی ایجوکیشن جی ایچ کیو راولپنڈی کی طرف سے فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ یونٹ کے کرنل صاحب نے گلے لگایا اور انعام سے نوازا۔ پھر ترقی ہو کر لانس نائیک بھی بن گیا۔ اسی دوران افغانستان میں روسی افواج حملہ آور ہو گئیں‘ وطن عزیز کے دفاع کیلئے یہ پارا چنار جا پہنچے اور تری مینگل کا پہاڑ‘ جس پر روسی فوج کا قبضہ تھا‘ پر عبدالغفور’او پی‘ کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ سال بھر یہاں خدمات کے بعد واپس آئے اور 1986ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں بی اے کر لیا۔ اسی سال فوج میں جے سی او ایجوکیشن کے طور پر سلیکشن ہو گئی۔ عبدالغفور اب صاحب بن گئے تھے۔ 1990ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ ڈیوٹی بہاولپور لگی تو وہاں کی یونیورسٹی سے انگلش میں ایم اے کر لیا۔ یوں پاک فوج کے سسٹم نے اپنے دیس کے ایک نوجوان کو مقابلے کے امتحان کیلئے بھی تیار کر دیا۔ اب وہ جونہی ریٹائر ہوئے تو بطور جوڈیشل افسر عدل کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔
عبدالغفور صاحب اب ایک ایسی آفیسرز روڈ پر دوڑے چلے جا رہے تھے جس کا آخری سٹاپ ڈپٹی کمشنر کا عہدہ تھا۔ بطور مجسٹریٹ انہوں نے شہر میں تجاوزات کا خاتمہ کیا تو ڈپٹی میئر کا فون آ گیا کہ یہ تو میرے بندے تھے‘ مجھ سے پوچھا کیوں نہیں؟ چودھری صاحب ڈٹ گئے۔ اب ان کے خلاف سازشوں کی کہانیاں شروع ہو گئیں۔ ان کے اپنے عملے کے لوگ ان کا ساتھ نہ دے رہے تھے کیونکہ وہ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بھرتی ہوئے تھے۔ چودھری صاحب کہتے ہیں لاہور میں مویشیوں کو شہر سے نکالنے اور سڑکوں پر دکانداری کے خلاف ریڈ شروع کی تو پتا چلا جومنتھلی دیتے ہیں ان پر کوئی ریڈ نہیں اور جو منتھلی نہیں دیتے ان کو منتھلی کے دائرے میں لانے کیلئے ریڈ کئے جاتے ہیں۔ میں نے عدل کے ساتھ کام کیا تو آخرکار تبادلے کے انجام سے گزرنا پڑا۔ مجسٹریٹ کی حیثیت سے کئی لوگ جو مجرم تھے‘ پھانسی کے پھندے پر لٹکائے۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ ایک منظر نہیں بھولتا۔ 40 سالہ شخص کو پھانسی دینے میں تھوڑا وقت باقی تھا‘ اُس کی خالہ زاد بہن مقتول کی وارث تھی۔ آخری وقت پر مجسٹریٹ کو اختیار ہوتا ہے کہ مقتول پارٹی معافی دیدے تو پھانسی رک جاتی ہے۔ ماموں اپنی بھانجی کے رو رو کر ترلے کر رہا تھا کہ وہ معاف کر دے مگر وہ خاموشی سے بیٹھی رہی اور کسی کی کوئی پروا نہ کی۔ میں نے کہا: ٹائم تھوڑا ہے‘ جو فیصلہ کرنا ہے‘ کر لو مگر وہ بولی: ہم چھ بہنیں ہیں‘ ہمارا صرف ایک بھائی تھا۔ میرے اس ظالم خالہ زاد نے میرے بھائی کو صرف اس لیے چھریاں مار کر قتل کر دیا کہ وہ اسے ہمارے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر بہنوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے روکتا تھا۔ اسے جب پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو وہ خوشی سے اٹھی اور کہا: 19 سال تک بھائی کے قتل کا مقدمہ لڑا‘ آج دل کو ٹھنڈ پڑی ہے۔ میں سوچنے لگ گیا کہ ان 19 سالوں میں اس خاتون نے کتنے لاکھوں خرچ کئے ہوں گے‘ کن کن مصیبتوں سے گزری ہو گی۔ کیسا ہے ہمارا عدالتی نظام؟
چودھری عبدالغفوراسسٹنٹ کمشنر بنے تو تحصیل ہیڈ کوارٹر کے پٹرول پمپوں سے سیمپل لیے اور جرمانوں کیساتھ پمپ سیل کر دیے۔ تحصیل ناظم نے آکر دھمکایا تو کہا: تمہیں گرفتار کیا جاتا ہے۔دوسری تحصیل میں تبادلہ ہو گیا۔ وہاں ایک مجرم کو لایا گیا تو اس کا بھائی بھی آ گیا اور مجرم کو بھگا دیا۔ چودھری صاحب نے پوچھا کہ مجرم کو بھگایا کیوں ہے؟ کہنے لگا: میری مرضی! چودھری صاحب نے کہا: تم گرفتار ہو۔ وہ بھاگنے لگا تو چودھری صاحب نے اسے قابو کر لیا اور پولیس کو بلوا کر ہتھکڑی لگوا دی۔ یہ ایم پی اے کا سپورٹر‘ ووٹر اور فنانسر تھا۔ ایم پی اے کا فون آیا تو چودھری صاحب نے نظر انداز کر دیا۔ اسی طرح ایک بار برسوں سے دھکے کھاتے ایک 72 سالہ بزرگ کے حق میں فیصلہ سنایا تو اس نے عدالت میں کھڑے کھڑے دعا کی کہ اے اللہ! چودھری صاحب کو ڈپٹی کمشنر بنا۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا‘ پاس ہوا اور پھر ڈپٹی کمشنر بن گیا‘ مگر پھر وہ وقت بھی آیا جب اس ڈپٹی کمشنر کو نیب نے گرفتار کر لیا۔ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ڈپٹی کمشنر باعزت رہا ہو گئے اور پھر دوبارہ ڈپٹی کمشنر کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل یہ داستان ان کی کتاب ”سپاہی سے ڈپٹی کمشنر تک‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس کتاب میں چودھری صاحب کے تجربات‘ واقعات اور تجاویز کو سامنے رکھ کر وطن عزیز کا حکومتی نظام مثالی بنایا جا سکتا ہے۔ چودھری صاحب کی سروس کا آغاز بھی مظلومیت سے ہوا اور اختتام قریب آیا تب بھی وہ مظلوم ڈپٹی کمشنر تھے۔ جو نظام اس سب کا ذمہ دار ہے‘ کیا اسے عدل کی راہ پر ڈالنے کا ابھی وقت نہیں آیا؟
تحریر:مولانا امیرحمزہ
“
Leave a Reply