اللہ کی رحمت و محبت سے ہم اہلِ پاکستان کے لیے 2024ء کا اگست مسرت کی نوید اس قدر لایا ہے کہ اہلِ وطن کی امیدوں کو سایہ دار اور پھلدار بنا دیا ہے۔ پاکستان کے اولمپین ارشد ندیم نے پیرس میں منعقدہ اولمپک گیمز میں عالمی چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی عمر 27 سال ہے۔ وزیراعظم پاکستان جناب شہبازشریف نے پاکستان کے اس ہیرو کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ ارشد ندیم بار بار فاتحانہ نعمت کا شکر ادا کر رہے تھے‘ اپنے ربِ کریم کو یاد کر رہے تھے۔14 اگست کے موقع پر اس میڈل کو پاکستان کے لیے تحفہ قرار دے رہے تھے۔ ارشد ندیم کا قد چھ فٹ چار انچ ہے۔ قد کے مطابق بازو لمبے‘ سینہ چوڑا‘ کلائی مضبوط اور ہاتھ طاقتور ہے‘ جس میں تھاما ہوا نیزہ جب پھینکا گیا تو اس نے نیا اولمپکس ریکارڈ قائم کردیا جو تادیر ٹوٹتا نظر نہیں آ رہا۔
میں نے سائنس کے شعبے بیالوجی کی دنیا میں علمی غوطہ لگایا تو آٹھ فروری2024ء کے سائنسی میگزین نیچر (Nature) میں ایک مضمون نظر آیا۔ یہ آرٹیکل جناب ڈینس نوبل (Denis Noble) کی ریسرچ پر مبنی ہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں حیاتیاتی نظام کے پائنیئر پروفیسر ہیں۔ حیاتیاتی نظام پر میں نے ان کا لیکچر بھی سنا۔ وہ بتا رہے تھے کہ حیاتیاتی سائنسدان یہی کہتے سنے جاتے رہے کہ انسانی ذات کی پہچان کا جو شعور ہے اسے جین (Gene) پیدا کرتا ہے مگر یہ نظریہ غلط ثابت ہوا ہے۔ جہاں تک جینز کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ
Genes don’t create us, body and mind
یہ جینز ہمیں پیدا نہیں کرتے‘ نہ ہی ہمارے جسم کو بناتے ہیں۔ اور نہ ہی ہمارے مائنڈ یعنی سوچ اور شعور کو بناتے ہیں۔
we control them and change them when we need to
جب ہمیں ضرورت ہوتی ہے تو ہم ہی جینز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ قارئین کرام! یہ ”ہم‘‘ کون ہے؟ جی ہاں! سائنسدان سائنسی تحقیقات کے بعد تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ”روح‘‘ ہے۔
ڈینس نوبل مزید کہتے ہیں:
Genes are not the blueprint for life… there are switches in genomes, those switches are controlled by other physiological processes, not by the genome itself
جہاں تک جینز کا تعلق ہے وہ زندگی کی خاکہ گری یا منصوبہ سازی نہیں کرتے۔ وہاں تو صورتحال یہ ہے کہ جینز کے نظام میں بہت سارے سوئچ ہیں‘ جو کسی دوسرے جسمانی اعمال کی جانب سے کنٹرول کیے جا رہے ہوتے ہیں۔
اللہ اللہ! یہ جو دوسرا نامعلوم جسمانی کنٹرول ہے یہی تو روحانی کنٹرول ہے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لوگو! سائنسدان مان تو رہے ہیں مگر اللہ کا نام لینے سے شرم آ رہی ہے۔ ہر cell یعنی خلیے کے اندر جو جینز ہوتے ہیں وہ on اور off ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کیسے ہوتے ہیں‘ انہیں کون آن‘ آف کرتا ہے یہ تو معلوم نہیں مگر یہ طے ہے کہ ان سب کا تعلق خاندانی ورثے سے ہے۔ یاد رہے! ہر بچہ اپنی جسمانی ساخت اور رویے زیادہ تر ماں باپ سے حاصل کرتا ہے اور کئی چیزیں اپنے گزرے ہوئے آبائو اجداد سے حاصل کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ لمبا قد‘ مضبوط ہڈیاں وغیرہ کا سوئچ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا نعمت ملنے پر پہلا شکر اسی رب کریم کا۔
ارشد ندیم کو تمام جسمانی نعمتیں کسی سوئچ کو آن‘ آف کرکے رب کریم ہی نے دی ہیں‘ یہ وہی جانتا ہے۔ دنیا تو دنگ رہ گئی کہ ایک چھوٹے سے گائوں کا رہنے والا نوجوان یکدم عالمی ہیرو اور یوم پاکستان یعنی 14 اگست 2024ء کے موقع پر پاک وطن کی ایک اہم ترین شخصیت بن گیا۔ اس حوالے سے یہ حیران کن مگر ہم سب کیلئے خوش کن اگست بن گیا‘الحمد للہ!
آج سے 53 سال پہلے‘ دسمبر 1971ء میں ہمیں ایک سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سیاسی ہزیمت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔ شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان کے وزیراعظم بنگلہ دیش بن گئے۔ انہیں ”بنگا بندھو‘‘ کا نام دیا گیا۔ کوئی چار سالہ حکمرانی کے بعد وہ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ان کا سارا خاندان مارا گیا۔ دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ‘ ملک سے باہر تھیں لہٰذا وہ بچ گئیں۔ قریب 20 سال بعد حسینہ واجد واپس آئیں تو ملک کی وزیراعظم بن گئیں۔ میں اُن دنوں ڈھاکہ میں تھا جب شیخ مجیب کی رہائش گاہ کو قومی میوزیم بنایا گیا۔ میں نے افتتاح کے دوسرے روز اس میوزیم کو دیکھا۔ پلٹن میدان کو دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ دن ضرور پلیٹیں گے۔ یہ خیال دل میں ایسے ہی نہیں آیا تھا بلکہ ڈھاکہ‘ چٹاگانگ اور راجشاہی کے دانشوران سے تبادلۂ خیال کے بعد آیا تھا۔ واپسی پر میں نے سفر نامہ لکھا تو کتاب کا نام ”اور انڈیا سینڈوچ بن گیا‘‘ رکھا۔ تب لوگوں کو یہ نام عجیب لگا تھا۔ آج وہ عجیب نام 14 اگست 2024ء کی صورتحال سے مطابقت اختیار کر گیا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوا ہے۔
خلیج بنگال کی طوفانی لہروں سے نظریۂ پاکستان پورے زور و شور سے موجیں مارتا ہوا بلند ہوا ہے۔ اس نے پاکستان دشمنی کی پتھریلی دیواروں کو منہدم کر دیا ہے۔ بنگالی عوام اور طلبہ پر ظلم ڈھانے والی جدھر سے آئی تھی‘ اسی طرف چلی گئی ہے۔ جس کو اس نے جلاوطن کیا تھا‘ وہ ڈاکٹر محمد یونس واپس آ گئے ہیں اور حسینہ واحد کی کرسی پر براجمان ہو گئے ہیں۔ شیخ مجیب کے آہنی اور حجری مجسموں کو ہتھوڑوں سے توڑا جا رہا ہے۔ حسینہ واجد کی تصاویر سے بنگلہ دیش کی دیواروں کو صاف کردیا گیا ہے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ نعرے لگانے والوں کو ”رضاکار‘‘ کا طعنہ دیا گیا تو اہلِ بنگلہ دیش نے اس طعنے کو اپنا نعرہ اور سلوگن بنا لیا۔ اس کا مطلب تھا ہم اللہ کی خاطر پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے‘ اس چاہت کی سزا انہوں نے 53 سال تک برداشت کی ہے۔ اپنے بزرگوں کو پھانسیوں کے پھندوں پر جھولتے دیکھا ہے۔ بنگلہ دیش سے پاکستان کی دشمنی کا اگست 2024ء میں اختتام ہوا ہے۔ لہٰذا2024ء کا اگست اس لحاظ سے بھی حیران کن مگر خوش کن ہے۔
وہ لوگ جو پاک وطن میں رہ کر اپنے دلوں میں وطن دشمنی کے سانپ چھپائے بیٹھے ہیں انہیں احساس بلکہ یقین ہو گیا ہے کہ ان کے دل کی زہریلی پٹاری بندرہے گی‘ کھل نہ پائے گی۔ مجھے یوں نظر آ رہا ہے کہ ان سانپوں کو بند پٹاری میں نہ ہوا مل سکے گی اور نہ ہی خوراک مہیا ہو سکے گی۔ لہٰذا ان کا مقدر پٹاری کے اندر ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ پٹاری کے اندر سانپ مر جائیں تو ان دلوں میں نظریۂ پاکستان کی ایسی دعوتی بارش موسلادھار برسے کہ یہاں باغ و بہار کا سماں بن جائے۔ ‘پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کا راج ہو جائے۔
ہمارے دیس کو عدل و انصاف کا نظام مل جائے۔ فرقہ واریت کا دم گھٹ جائے۔ خارجیت کا ”خروج‘‘ دیکھنے کو مل جائے۔ جھوٹ کا جھکڑ جڑ سے اکھڑ جائے۔ بدتمیزی کا طوفان غارت ہو جائے۔ عالمی حالات کا تقاضا تو کب سے تھا کہ یہ سب کچھ جلد از جلد ہو جائے مگر اگست 2024ء کا پیغام کچھ یوں سنائی دینے لگ گیا ہے کہ پاک وطن مصنوعی بحران سے نکلنے اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے اور پھر امن و سلامتی کا نیزہ دور تک پھینکنے کو تیار ہو چکا ہے۔ان شاء اللہ!
منظر حیران کن ہے مگر خوش کن ہوا چاہتا ہے۔
تحریر:مولانا امیر حمزہ
Leave a Reply