اللہ تعالیٰ نے جو پہلا انسان اس جہان میں پیدا فرمایا وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ ان کے اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان زمانی بُعد کس قدر تھا؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں اپنی آخری کتاب میں یہ انکشاف فرمایا کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو دعوتِ توحید دی‘ یعنی 950سال ان کی نبوت اور دعوت کا زمانہ ہے۔ لامحالہ ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہو گی بلکہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
آخری رسول گرامی حضرت محمدﷺ اس جہان سے تشریف لے گئے‘ اس واقعہ کو تقریباً 1436 سال گزر چکے ہیں‘ حضرت نوح علیہ اسلام کی عمر اس کے قریب قریب بھی ہو سکتی ہے۔ ان لمبی عمروں اور لمبے قد کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا قد60 ہاتھ تھا۔ یہ لگ بھگ 90فٹ بنتا ہے۔ فرمایا: اس کے بعد قد بتدریج کم ہوتے چلے گئے‘ عمریں بھی کم ہوتی چلی گئیں۔ ان حقائق کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک کا زمانہ ہزاروں سال پہ محیط ہو سکتا ہے۔ دونوں کے درمیان لاکھ سال کے لگ بھگ زمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان مزید کتنے نبی آئے‘ اس کا احوال بھی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں‘ بہرحال! انسانیت کا یہ پہلا دور تھا جو گزر چکا۔
انسانیت کا دوسرا زمانہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دوران سب سے عظیم رسول حضرت ادریس علیہ السلام تشریف لاتے ہیں۔ بائبل آگاہ کرتی ہے کہ انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا‘ قرآنِ مجید میں اس بابت ایک اشارہ موجود ہے۔ آگے چل کر دو رسول اور تشریف لاتے ہیں۔ موجودہ سعودی عرب کے شمالی علاقے میں ”ثمود‘‘ کے نام سے ایک قوم آباد تھی۔ یہ پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے تھے۔ اس علاقے کو مدائن صالح کہا جاتا ہے۔ یہاں حضرت صالح علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ سعودی عرب کے صحرا ”ربیع العالی‘‘ میں ”قوم عاد‘‘ کے ڈھانچے اور بستیاں مل چکی ہیں۔ ان کے قد 25‘ 30 فٹ کے قریب تھے۔ اس کے مطابق ان کی عمریں پانچ‘ چھ سو سال کے قریب تو ہوں گی۔ اس قوم کی طرف حضرت ہود علیہ السلام تشریف لائے تھے۔
حقائق کی بنیاد پر غالب یقین یہ کہتا ہے کہ قومِ عاد ثمودیوں سے بہت عرصہ پہلے تھی۔ اسی دوران دنیا کے دیگر علاقوں میں کتنے رسول آئے‘کتنی تہذیبیں گزر گئیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں‘ تاہم اللہ تعالیٰ نے یہ ضرور بتایا کہ صدیوں کی صدیاں گزر گئیں۔ یہ بھی بتایا کہ وہ تم لوگوں سے کہیں بڑھ کر زمین کو آباد کرنے والے اور رونقوں سے مالا مال کرنے والے تھے۔ قرآن مجید کے بتائے گئے ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سے کہیں بڑھ کر دو تین نہیں تو ایک زمانہ ضرور ایسا گزر چکا ہے جو ہم سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ سمندر میں اور خشکی پر ایسے شواہد مل چکے ہیں جن کو ہمارے آج کے سائنسدان بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جی ہاں! بعض شواہد کے مطابق یہ دوسرا دور بھی 30‘ 40ہزار یا کم و بیش ایک لاکھ سال کے قریب تھا۔اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔
انسانیت کا تیسرا دور حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے شروع ہوتا ہے۔ آپ علیہ السلام کے زمانے میں بڑی بڑی تہذیبیں اور بادشاہتیں موجود تھیں۔ گویا یہ زمانہ معلوم انسانی تاریخ کا زمانہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا کردار تاریخ ساز شکل اختیار کرتا ہے۔دو قومیں نشوونما پانا شروع ہوتی ہیں۔ بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام مکہ میں آباد ہوتے ہیں‘ ان کی اولاد موجودہ سعودی عرب‘ یمن‘ شام اور عراق کے بعض علاقوں میں پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔ دوسری قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام پھر ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام اور پھر ان کے بارہ بیٹوں سے پھیلتی ہے۔یہ بنو اسرائیل کہلاتے ہیں۔ بارہ بھائیوں میں سے حضرت یوسف علیہ السلام نبوت کے مرتبے کو پہنچتے ہیں۔ ان کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام ان کو صحرائے سینا میں ایک قومی شکل دیتے ہیں۔ ان کے بعد حضرت یوشع بن نون اس قوم کو یروشلم فتح کرکے دیتے ہیں اور پھر ہوتے ہوتے یہ قوم حضرت شمعون (یا شمویل) اور حضرت طالوت جیسے بادشاہوں کی عظمت کا نظارہ کرتی ہے۔ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی نبوت اور عظیم بادشاہتوں کے مناظر ملاحظہ کرتی ہے۔
تفسیر ابنِ کثیر کے مطابق حضرت موسیٰ اور حضرت دائود علیہما السلام کے مابین ایک ہزار سال کا عرصہ ہے۔ بادشاہ اور نبی تواتر سے آتے رہتے ہیں۔ آخر کار! اس قوم کے پاس بنو اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام آتے ہیں۔اس کے 70 سال بعد بنو اسرائیل یروشلم سے نکال دیے جاتے ہیں اور یہ قوم دنیا بھر میں دھکے کھاتی پھرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اگلے چھ سو سال تک کسی بھی پیغمبر سے محروم رہتی ہے۔ انسانیت پر یہ چوتھا زمانہ ایسا تھا کہ جب انسانیت ہدایت کو ترس گئی تھی۔ مسیحیت تثلیث کا شکار ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا بیٹھی۔ ماں حضرت مریم اور بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مورتیوں کی پوجا پر لگ گئی۔ یہ چھ صدیاں شدید روحانی پیاس کی تھیں۔
انسانیت کا آخری اور پانچواں زمانہ اُس وقت شروع ہوا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے صدیوں بعد اپنا آخری رسول معبوث فرمایا۔ختم المرسلین حضرت محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم ربیع الاول کے مہینے میں اس جہان میں تشریف لائے۔ اب قیامت تک کا زمانہ حضور کریمﷺ کا زمانہ ہے۔ احد کے معرکے میں کچھ افراد کی غفلت کی وجہ سے مشرکین کو پیچھے سے وار کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمانوں کی فتح کا معرکہ شکست میں بدل گیا۔ اسی دوران مشہور ہو گیا کہ اللہ کے رسول شہید ہو گئے ہیں۔ بعض لوگ دلبرداشتہ ہو گئے کہ اب لڑنے کا کیا فائدہ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نصیحت آموز آیت نازل فرمائی۔ ” نہیں ہیں محمد مگر اللہ کے رسول۔ آپ سے پہلے بھی بہت سارے رسول گزر چکے۔ کیا اگر آپ (طبعی طور پر) دنیا چھوڑ دیں یا قتل(شہید) کر دیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پائوں ( میدان چھوڑ کر) پلٹ جائو گے؟ یاد رکھو! جو واپس پلٹے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کر ے گا جبکہ شکر گزاروں کو اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دے گا‘‘(آلِ عمران: 144)۔
قارئین کرام! غور فرمائیں‘ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جس ماضی کا تذکرہ کیا‘ ہم نے اس ماضی کو اختصار کے ساتھ اس لیے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں واضح فرما دیا کہ رسولوں کی بعثت کے زمانے ماضی بن گئے۔ حضورﷺ کی طبعی وفات یا شہادت کا تذکرہ کرکے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ زمانہ بھی ماضی بننے والا ہے بلکہ فرمایا! خبردار! جو کوئی واپس پلٹا۔ یعنی اب جو زمانہ ہے‘ اس کا ٹائم قیامت تک ہے۔ اب مزید کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔ یہ زمانہ قیامت تک ختم المرسلین کا زمانہ ہے جو اس (زمانۂ ختم نبوت) پر شاکر رہے گا‘ خوش رہے گا‘ نامِ محمدؐ پر صدقے واری جاتا رہے گا۔ اس کو دنیا و آخرت میں سرفرازی ملے گی۔
حضور کریمﷺ ربیع الاول میں اس جہان میں تشریف لائے‘ اسی مہینے میں واپس اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ یاد رہے! انبیائے کرام اور ختم المرسلینﷺ کے سوا ہر انسان اس جہان میں ” فلان‘‘ ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں نہیں تو ملک نہیں‘ وہ انسانی تاریخ کے سارے ادوار دیکھ لے۔ تاریخ سے بھری ہزاروں الماریاں ملاحظہ کر لے‘ بے شمار اجڑتے‘ مٹتے اور بنتے قبرستان دیکھ لے۔ جہان باقی ہے مگر کوئی فلان دکھائی نہیں دیتا۔ ربیع الاول کے مہینے میں ہم اپنا عقیدہ ٹھیک کر لیں۔ یہ عقیدہ ہمیں سمجھا کر گئے ہیں حضرت محمد کریمﷺ۔ فرمایا: قرآن اور میری سنت پر جمے رہنا‘ اہلِ بیت کی عزت و توقیر کو مقدم جاننا۔ میں اپنا حوض دیکھ رہا ہوں‘ عنقریب وہاں ملاقات ہو گی۔ لوگو! ہم سب ”فلان‘‘ ہیں آیئے حضورﷺ سے حوضِ کوثر پر ملاقات کی فکر کریں۔
تحریر:مولانا امیر حمزہ
Leave a Reply