اللہ اللہ! سائنس کی دنیا میں وہ خوش کن دن بھی آ گیا جب سائنسدانوں نے پانچ الفاظ ایسے استعمال کیے کہ جوسب برزخی الفاظ ہیں۔
Veil(1)
یعنی پردہ یا نقاب۔ : Boundary(2)
یعنی ایسی حد جسے پار کرنا ممکن نہ ہو۔ : Blurred‘(3)
یعنی یہ سرحد ایسی دھندلی ہے کہ سمجھ سے باہر ہے۔ : Thin‘(4)
یہ پردہ یا بائونڈری بہت لطیف اور نازک ہے۔یہ بہت ہلکا اور خفیف پردہ ۔ : Slight‘(5)
قارئین کرام! یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر‘ جن کی مہارتوں کو درج کرنے کے لیے کوئی درجن بھر خصوصیات لکھنا پڑیں گی‘ کا نام پیٹر اے نوبل (Peter A Noble) ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی اور مائیکرو بیالوجی سمیت ان کے متعدد شعبے ہیں مگر اختصار کے ساتھ عرض کروں تو وہ ڈی این اے اور اس کے اندر جینز کے ماہر ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے سائنسدان Alex Pozhitkov ہیں‘ جو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے علاقے Duarte کے نیشنل میڈیکل سنٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔ 16 ستمبر 2024ء کو ان دونوں نے سائنسی دنیا کے سامنے اپنی ایک تجرباتی تحقیق پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا: انسان جب مرتا ہے تو اس کے مردہ اعضا کے خلیات میں سے نئے خلیات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کا تعلق ہماری دنیاوی زندگی اور موت سے نہیں ہے۔ یہ تو ایسی حقیقت ہے جو Beyond life and death (زندگی اور موت سے دور اور پرے کی ماورائی شے) ہے۔ یاد رہے Beyond کا عربی میں معنی ”ماورا‘‘ ہے۔ قرآنِ مجید اس لفظ کو اس طرح استعمال فرماتا ہے۔ ”(ظالم لوگ ظلم کرتے رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان لوگوں میں سے کسی کے پاس موت آ جائے گی تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے تاکہ میں اس دنیا میں‘ جسے میں چھوڑ کر آ رہا ہوں‘ اچھا کردار اختیار کر لوں۔ (جواب ملے گا:) ہرگز نہیں! یہ تو (محض زبان سے ادا ہونے والا ایک جملہ ہے) جسے یہ شخص ادا کر رہا ہے۔ (حقیقت نیا رخ اختیار کر چکی) ان لوگوں کے (اور دنیا) کے درمیان( من ورآئھم) ایک (پردۂ) برزخ حائل ہو چکا ہے‘ اس (قیامت کے) دن تک جب یہ سب (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے‘‘ (المؤمنون: 99 تا 100)
سائنسدانوں نے اس برزخ کو ایک تیسری چیز قرار دیا ہے اور اسے زندگی اور موت کے درمیان ایک نیا نظام قراردیتے ہوئے(تھرڈ سٹیٹ)کہا ہے “
This is a hidden system of “Electrical circuits” that end up reanimating the cells.
”برقی رو کا یہ ایک ایسا پوشیدہ نظام ہے جو خلیات میں سے نکلی ہوئی جان کو دوبارہ ڈال دیتا ہے‘‘
قارئین کرام! جان نکلنے کے بعد جب مردے کو قبر میں لٹا دیا جاتا ہے تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”اس کی روح کو پلٹایا جاتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ وہ اسے بٹھاتے ہیں اور اسے پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: اللہ میرا رب ہے۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں اسے پوچھتے ہیں: تم اس شخص (سیدنا محمدﷺ) کے بارے کیا کہتے ہو جو تمہاری طرف بھیجے گئے؟ جواب میں (مومن شخص) کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘ (سنن ابودائود‘ سنن نسائی‘ سنن ابن ماجہ‘ صحیح السند)۔ اسی طرح صحیح بخاری (حدیث: 1338) اور مندرجہ بالا کتب میں یہ بات بھی حضورﷺ نے بتلائی ہے کہ جب (قبر پر مٹی ڈال کر دعا کرکے لواحقین واپس جانے لگتے ہیں تو قبر میں سوالوں کے جواب دینے والا شخص واپس جانے والوں کے قدموں کی چاپ کو سنتا ہے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ مرنے والا شخص قبر کی برزخی زندگی میں زندہ ہوتا ہے اور یہاں سے اگلے جہان کی برزخی زندگی جس کا نام ”علیین‘‘ ہے‘ (نیک ارواح کو ‘علّیّین‘ اور بد ارواح کو ‘سجّین‘ ) بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ Third State یعنی برزخ کی زندگی‘ جس میں انسان زندگی گزارتا ہے۔ جی ہاں! جدید ترین تجربات کے ساتھ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ برزخ کا وجود موت کے بعد شروع ہو جاتا ہے‘ اس کی ابتدائی خبر انسان کے مرنے والے اعضا دیتے ہیں‘ کہ جن کے اندر سے نئے خلیات جنم لیتے ہیں اور وہ Third State میں ہوتے ہیں۔ اس تیسری حالت یعنی برزخ میں پیش آنے والے حالات و واقعات قرآن مجید اور حضور نبی کریمﷺ کے فرمودات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
قارئین کرام! روح لوٹانے کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں‘ تاہم حقیقت کچھ یوں سمجھ میں آتی ہے کہ بندہ جونہی موت سے دوچار ہوا‘ اس کے جسم کے ہر عضو کے پرانے خلیات اور نیورونز بھی موت سے دوچار ہو گئے‘ جو بعد ازاں نئے بن کر سامنے آئے۔ برزخ کے جہان میں روح کا تعلق ان کے ساتھ ہے۔ یہ تعلق اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ قبر میں یہ تعلق بڑھ جاتا ہے اور حساب کتاب ہوتا ہے۔ حساب کتاب کے بعد یہ نئے خلیات اور نیورونز مٹی میں مل جاتے ہیں‘ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضورﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ انسان کے سارے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے‘ صرف ”عجب الذنب‘‘ محفوظ رہتا ہے۔ یہ ریڑھ کی ہڈی کا نچلا ترین حصہ ہے‘ جسے انسان کی دُم بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ ایک عجیب قسم کا خلیہ ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اسی سے انسان (ماں کے پیٹ میں) تخلیق ہوا اور اسی سے قیامت کے دن زمین سے اٹھے گا۔ مستدرک علی الصحیحین کی ایک روایت ہے کہ اللہ کے آخری رسولﷺ سے پوچھا گیا کہ دم کی ہڈی کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ رائی کے دانے کے برابر ہے۔
آخری تعلق روح کا اسی سے رہتا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام علماء کا جس بات پر اتفاق ہے‘ اسے علامہ علی صلابی نے خوبصورت انداز سے عربی میں بیان کیا ہے۔ بندے کے تین گھر ہیں۔1: دنیا کے گھر میں جسم پر احکام جاری ہوتے ہیں‘ روح جسم کے تابع رہتی ہے۔ 2: اللہ نے برزخ کے احکام کو روح پر جاری فرمایا ہے‘ جسم اس کا تابع ہے (وہ ”عجب الذنب‘‘ کی صورت میں دنیا کی مٹی میں کہیں پڑا ہوتا ہے‘ اس کے ساتھ ایک معمولی تعلق رہتا ہے)۔ 3: قیامت کے دن سزا اور جزا جسم پر ہو گی جس میں جان یا روح ہو گی۔ یہی انسان جنت میں جائے گا یا جہنم کا ایندھن بنے گا۔ لوگو! بالآخر ایک دن اس جسم سے ہم نے نکلنا ہے‘ نکلنے کی کیفیت کیا ہو گی۔ سائنس بتاتی ہے:
Cells of a dead organism can reportedly enter a ‘third state’ following an organism’s death – and could unlock a deeper understanding about our connection to life and death.
”کسی بھی مردہ عضو کے خلیات کا تھرڈ سٹیٹ (برزخ) میں داخل ہونا رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایک عضو کی موت کے بعد اگلے عضو کی موت کا عمل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔ جی ہاں! اسی بات کو قرآن مجید یوں بیان فرماتا ہے ”خبردار! جب جان ہنسلی کی ہڈیوں تک پہنچتی ہے تو کہا جاتا ہے: ہے کوئی دم کرنے والا؟ مرنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ دنیا چھوڑنے کا وقت آ گیا ہے‘‘ (القیامہ: 26 تا 28)۔ یعنی جب موت کا عمل شروع ہوتا ہے تو پائوں کی انگلیوں سے شروع ہوتا ہے‘ جوں جوں روح اوپر جاتی ہے اعضا مرتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ روح ہنسلی کی ہڈی تک پہنچ جاتی ہے۔ سبحان اللہ! جو قرآن مجید نے بتایا آج کی تجرباتی سائنس اسی کے مطابق اعلان کرتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حیاتِ دنیوی میں ہر انسان کو برزخ میں داخل ہونے کے تیاری کا موقع دے رکھا ہے۔ آئیے! تیاری کریں‘ سفر کا آغاز کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
تحریر:مولانا امیر حمزہ
Leave a Reply