ٹرمپ اور عالمی امن کیسے؟

اللہ قادر و قدیر کے بنائے ہوئے دن بدلے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی فتح کے بعد اولین تقریر میں کہا کہ میں نے اپنے گزشتہ چار سالہ دورِ صدارت میں کوئی جنگ شروع نہیں کی تھی‘ میں اب بھی جنگ شروع نہیں بلکہ ختم کروں گا۔ میں نے یوکرین اور غزہ کے بارے میں پہلے بھی کہا تھا کہ جنگ کی بجائے مذاکرات کریں۔ جی ہاں! صدر ٹرمپ کے نظریۂ امن کو خراجِ تحسین ہے اور امریکی قوم کے ووٹرز کو بھی ہم خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہاں کی انسانیت نے دراصل امن کو ووٹ دیا ہے۔ جنابِ ٹرمپ نے امن کی بات کی تھی۔ جب اپنے چار سالہ اقتدار کے پُرامن کردار کی بات کی تو وہ بھاری اکثریت کے ساتھ دنیا کی سپر پاور کے صدر بن گئے۔ کانگریس کے وہ امیدوار‘ جو غزہ جنگ کے حامی تصور کیے جاتے تھے‘ بری طرح ہار گئے ہیں۔ ایسے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ انسانیت امن چاہتی ہے۔ امریکی قوم نے جس طرح اہلِ غزہ کی مظلومانہ بربادیوں پر ان کے ساتھ ہمدردی کااظہار کیا‘ جنگ بند کرانے کی جو کوشش کی وہ قابلِ تحسین ہے۔ مگر اس قابلِ تحسین جدوجہد کو وقت کی حکومت نے قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا بلکہ بے قدری کی تو آج وہ اہلِ اقتدار بے قدری اور گمنامی میں گم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔


میرا تجزیہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال امریکی پنٹاگون‘ وزارتِ دفاع اور خارجہ کے لیے حبس زدہ اور شکست خوردہ جنگی ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ مذکورہ تینوں ادارے اپنے عوام کی نظر میں ظالمانہ کردار کی علامت بن چکے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی حیثیت یہی ہے۔ اس حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حالات تبدیل ہوں‘ ظلم کی ذمہ دارجوبائیڈن انتظامیہ تبدیل ہو۔ دنیا بھر کی انسانیت نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا مگر امریکہ اس کی پشت پر تھا‘ یوں گلوبل انسانیت کی نظروں سے ایک ظالم حکمرانی کا اوجھل ہو جانا خود امریکہ کے مفاد میں ہے۔ مجھے نظر آ رہا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکمران قیادت کا حشر بھی ایسا ہی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہونے والا ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے جنگی جرائم کے مجرموں کے تعاقب اور انتظار میں ہیں۔ اگلی حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج کو شکست ہو چکی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ دو ماہ کے لیے جنگ بندی کی اپیل کر رہے ہیں مگر کوئی بھی اس اپیل کو سننے کے لیے تیارنہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ چودہ ماہ جاری رہ کر گزشتہ کئی ماہ سے گوریلا جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چودہ ماہ سے جاری اس جنگ میں اسرائیل کے سامنے حماس‘ حزب اللہ اور حوثی جنگجو ہیں۔ اسرائیل کے سامنے کوئی ملک جنگ نہیں لڑ رہا جس کی بری‘ بحری اور فضائی فوج ہو۔ مد مقابل کوئی ریاست نہیں بلکہ تنظیمیں ہیں۔ ایران کا مذکورہ تنظیموں سے تعاون واضح ہے مگر وہ براہِ راست جنگ میں شریک نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اس وقت دنیا کے اہلِ نظر کے سامنے ہے۔ یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو جس قدر وقت گزرتا جائے گا‘ اسرائیل کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ تین‘ چار سالوں تک اگر یہ جنگ وسیع ہو جائے تو اسرائیل کا وجود اور بقا سخت خطرے سے دوچار ہو جائے گی چنانچہ اس خطرے سے اسرائیل کو نکالنے کے لیے ” امریکی رجیم چینج‘‘ ایک فطری سی بات ہے۔ عنقریب اسرائیل کا رجیم چینج بھی ایک فطری اور قدرتی امر ہو گا۔


یہ بھی واضح کر دوں کہ اس جنگ کو جس حقیقت نے پھیلنے سے روکا ہے وہ ایران کی جرأتِ رندانہ ہے۔ جس حقیقت نے اس جنگ کو پورے خطے میں پھیلنے سے روکا ہے وہ میرے پاک وطن کی عسکری‘ ایٹمی اور دفاعی قوت ہے۔ میرے دوست قاری عمر جٹھول کے مطابق اسرائیل نے سوچا تھا کہ ایران پر حملہ شدید کر دیا جائے‘ ان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے اور ساتھ ہی پاکستان کو بھی لپیٹ لیا جائے‘ اس پر ہمارے جاگنے والوں نے ایک سخت مشترکہ پیغام دیا۔ یہ پیغام سعودی عرب‘ ایران اور میرے پاک وطن کا تھا۔ جو جاگتے رہتے ہیں۔ ان کے قائدین جناب جنرل سید عاصم منیر اور جناب جنرل عاصم ملک تھے۔ اس اتحادی پیغام نے نیتن یاہو کے ہوش گم کر دیے؛ چنانچہ اب امن کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ امن آگے بڑھے گا۔ یوکرین میں بھی اپنا کام دکھائے گا۔ نیتن یاہو اور ولودو میر زیلنسکی ہم عقیدہ ہیں اور ان دونوں نے دنیا کو عالمی جنگ کے بھڑکتے ہوئے آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑا کردیا ہے۔ اس امن کو حماس‘ حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کی قربانیوں نے قریب کیا ہے۔ اہلِ غزہ کی شہادتوں‘ جنوبی لبنان کے باسیوں کی شہادتوں نے دنیا کو اس کے راستے پر آنے کو مجبور کیا ہے۔ ٹرمپ کی صورت میں حالات ساز گار بن گئے ہیں اور ایسا ہونے کی قوی امید ہے۔ اللہ کریم کا یہ فرمان ایک بار پھر دنیا کو آگاہ کرے گا کہ ”جب کبھی یہ (یہودی) لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے۔ یہ لوگ زمین پر فساد(دہشت گردی) کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘ (المائدہ: 64)۔


میں نے ایران سے ”الف‘‘ کو لیا‘سعودی عرب سے ”س‘‘ کو لیا اور پاکستان سے ”پ‘‘ کو لیا تو یہ ”اسپ‘‘ بن گیایعنی گھوڑا۔ یہ تینوں ملک اب قوت کا ایک گھوڑا ہیں۔ اس سے مسلکی فساد کا بھی خاتمہ ہوگا۔ بہت سارا ہو چکا ‘مزید ہونا چاہیے۔ اس کے بعد آگے بڑھیں اور سارا عالم اسلام ساتھ ملائیں۔ پھر مزید آگے بڑھیں اور ساری انسانیت کو اپنے ساتھ لے لیں۔ امن کے گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ جب امن کے بین الاقوامی ہال میں قدم رکھیں تو رحمت دو عالمﷺ کا اسوہ دنیا کے سامنے رکھیں۔


سیلاب نے کعبہ شریف کو نقصان پہنچایا تو کعبۃ اللہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ ”سیرت ابن اسحاق‘‘ میں ہے کہ تب حضور نبی کریمﷺ کی عمر مبارک35سال تھی۔ الطبقات‘ اخبار مکہ‘ سیرت ابن ہشام میں ہے کہ قریش نے کعبہ کی تعمیر کا کام آپس میں قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کر لیا۔ بنو عبد مناف اور بنوزہرہ کے حصے میں کعبہ کا مشرقی حصہ آیا۔ حجر اسود اور رکنِ یمانی کا درمیانی حصہ بنو مخزوم‘ بنو تیم اور ان کے ساتھ شامل ہونے والے کچھ دوسرے قریشی قبیلوں کے ذمہ لگا۔ پچھلی سمت میں مغربی جانب کی تعمیر بنو جمح اور بنو سہم کے حصے میں آئی۔حطیم کی جانب سے تعمیر بنو عبدالدار‘ بنو اسد اور بنو عدی کے حوالے کردی گئی۔ سب قبائل اپنے اپنے حصے کی تعمیر میں مگن ہو گئے مگر جب حجر اسود کے نصب کرنے کی بات آئی تو اسے کون نصب کرے‘ اس پر جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ اسے اپنا حق بتا رہا تھا۔ بات یہاں تک بڑھی کہ مرنے مارنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ بنو عبدالدار خون سے بھرا ہوا پیالہ لے آئے۔ انہوں نے اس میں سب کے سامنے ہاتھ ڈبوئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہم نہیں تو پھر خون ہی خون۔ آخر طے یہ ہوا کہ باب شیبہ سے جو شخص بھی سب سے پہلے حرم میں داخل ہو گا‘ اس جھگڑے کو وہی نمٹائے گا۔ اب سب انتظار کرنے لگ گئے۔ کیا دیکھا کہ محمد ابن عبداللہﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ سب نے کہا: حضرتِ امین آ گئے۔محمد صادق (ﷺ) کا فیصلہ ہمیں قبول ہو گا۔ حضور کریمﷺ کو ساری بات بتلائی گئی۔ آپﷺ نے ایک چادر میں حجر اسود کو رکھا اور فرمایا: سب قبیلے اس چادر کو پکڑ کر اٹھائو۔ سب نے اسے اٹھایا اور حجر اسود کے نصب کرنے کے مقام تک لے آئے۔ اب حضورﷺ نے حجر اسود کو چادر پر سے اٹھایا اور تنصیب کی جگہ پر رکھ دیا۔ سب اس فیصلے پر راضی تھے۔


اس طرح کا عدل ہو غزہ میں‘ جنوبی لبنان میں‘ اسرائیل میں‘ اوریوکرین میں۔ میرے حضورﷺ کے عدل کا بول بالا ہو۔ جنگیں ٹل جائیں اور امن کی مالا انسانیت کے گلے میں ہو۔

تحریر:مولانا امیر حمزہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.