اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کریمﷺ کو آخری رسول بنا کر‘ تمام انسانیت کے لیے اور قیامت تک کے لیے مبعوث فرمایا۔ حضرت عامر بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسولﷺ عالیہ (مدینہ منورہ کے بلند علاقے قباء) کی طرف سے تشریف لائے۔ آپﷺ کا گزر (انصار کے اوس قبیلے کی شاخ) بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے ہوا۔ آپﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر آپﷺ نے اپنے رب کے حضور (تشہد میں) لمبی دعا کی۔ (صحابہ کہتے ہیں) جب آپﷺ نے (سلام پھیرنے کے بعد) اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف کیا تو فرمایا ”میں نے اپنے اللہ کے حضور تین درخواستیں پیش کیں۔ دو کو اللہ نے قبول فرما لیا جبکہ ایک درخواست تسلیم نہیں فرمائی۔ پہلی درخواست یہ تھی کہ میری (تمام) امت کو قحط سالی سے ہلاک نہ کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ درخواست قبول فرما لی۔ دوسری دعا یہ کی کہ میری (تمام) امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی قبول فرما لی۔ تیسری درخواست یہ تھی کہ ان کے درمیان آپس میں لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی‘‘۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الفتن: 7260) اسی طرح صحیح بخاری کی ایک حدیث میں بھی یہی بتلایا گیا ہے کہ آپس کی لڑائی جاری رہے گی۔ مسند احمد اور جامع ترمذی کی احادیث میں بھی اس حقیقت کی جانب واضح اشارہ ہے۔ امام طبرانی رحمہ اللہ جو حدیث لائے ہیں‘ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولﷺ سے وعدہ کیا کہ ساری دنیا کے کفار اگر آپ کی امت کے خلاف اسے مٹانے کیلئے اکٹھے ہو جائیں تو بھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ ہاں البتہ! یہ آپس میں لڑتے مرتے رہیں گے۔ قارئین کرام! معلوم یہ ہوا کہ آپس کی لڑائی کو روکنا امت کے مصلحین کا کام ہے۔ یہ حضور کریمﷺ کے وارث علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا ان دانشورانِ امت اور خیر خواہانِ امت کو اپنا کردار جاری رکھنا چاہیے۔
سعودی عرب اور ایران میں صلح کا پس پردہ کردار ادا کیا تو پاکستان اور چین کی مشاورت نے ادا کیا۔ میرے دوست قاری عمر جھٹول بتاتے ہیں کہ پاک فوج کے سالار حافظ سید عاصم منیر صاحب نے اس میں خوب کردار ادا کیا۔ چین ہمارا پڑوسی ملک اور گہرا دوست ہے۔ اس کے صدر جناب شی جن پنگ بھی ضرورت محسوس کر رہے تھے کہ پاکستان ان کا گہرا دوست ہے‘ ایران کے ساتھ بھی اس کے گہرے تعلقات ہیں جبکہ سعودی عرب کے ساتھ بھی حالیہ مدت میں چین کے اچھے تعلقات بن گئے ہیں لہٰذا چین اور پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات اچھے ہو جائیں۔ سازگار ماحول یوں بھی بنا کہ جناب جنرل سید عاصم منیر جب سعودی عرب میں تعینات تھے تو انہوں نے وہاں اپنی دو سالہ خدمات کے دوران قرآن مجید کے حفظ کی دہرائی مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف میں کی۔ عربی زبان کی مہارت بھی حاصل کی۔ سعودی حکمرانوں سے تعلقات بھی بنے۔ یوں ان کی شدید ترین خواہش تھی کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ٹھیک ہو جائیں تو خشکی کے راستے سعودی عرب‘ عراق‘ ایران‘ پاکستان اور چین باہم مل جاتے ہیں۔ بحر احمر اور بحیرۂ عرب کے راستے اور خلیج کے راستے سے بھی آپس میں پہلے سے ملے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے چین سی پیک کے ذریعے ملا ہوا ہے۔ چنانچہ چین آگے بڑھا‘ جناب شی جن پنگ نے خود اس کام میں دلچسپی لے کر جناب محمد بن سلمان‘ کرائون پرنس اور وزیراعظم سعودی عرب سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2023ء میں دونوں ملکوں‘ سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کے دور کا آغاز ہو گیا۔ مسلکی فساد رک گیا۔ پاک وطن سے تو یہ پہلے ہی ختم ہو چکا تھا‘ عراق‘ شام اور یمن وغیرہ میں بھی امن کے حالات پیدا ہو گئے۔
13 مئی 2024ء کو سعودی عرب کے عراق میں سفیر جناب عبدالعزیز الشمری کربلا میں تشریف لے گئے۔ ان کا استقبال گورنر‘ محافظِ کربلائے معلیٰ جناب انجینئر نصیف الخطابی نے کیا۔ صوبہ کربلا کے عمائدین بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ سعودی سفیر نے یہ بھی بتایا کہ سعودی ایئر لائن 26 اپریل 2023ء سے کربلا کے لیے خدمات جاری رکھے ہوئے ہے اور جنوری 2024ء سے سعودی شہر دمام سے نجف اشرف کے لیے بھی پروازیں جاری ہو چکی ہیں۔ جناب عبدالعزیز الشمری جب حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک پر گئے تو عربی اخبارات نے ان کی تصویر کے ساتھ لکھا ”السفیر السعودی فی مرقد الامام الحسین علیہ السلام‘‘۔ یاد رہے! سعودی سفیر عبدالعزیز خالد الشمروخی الشمری 14 اکتوبر 2016ء سے عراق میں سفیر تعینات ہیں۔ اس سے قبل وہ نجف اشرف میں حضرت علی حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے مرقد مبارک پر بھی گئے۔ یہ ایران کے لیے ایک پیغام تھا کہ سعودی عرب کے اہلِ تشیع کے لیے کربلا اور نجف کے لیے سعودی ایئر لائن کی براہ راست پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔ دنیا بھر کے اہلِ تشیع کے لیے یہ خیر سگالی کا پیغام تھا۔
قارئین کرام! اسرائیل کی فوج نے غزہ اور جنوبی لبنان پر جو ظلم ڈھایا ہے‘ اس ظلم کو تیرہ ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔ 11 نومبر کو سعودی دارالحکومت ریاض میں 55 مسلم و عرب ممالک کا اجلاس ہوا۔ یہ سربراہی اجلاس‘ جو خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز کی سیادت میں ہوا‘ وہاں وزیراعظم سعودی عرب محمد بن سلمان نے اسرائیل کو انتباہ کیا کہ غزہ اور جنوبی لبنان میں وہ جس نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے اسے فی الفور بند کرے۔ جنگ میں ملوث لوگوں پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جائیں۔ یہ لوگ یو این او کی بات نہیں مان رہے‘ لہٰذا اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت منسوخ کی جائے۔ وزیراعظم پاکستان جناب محمد شہباز شریف نے بھی اس کانفرنس سے انتہائی دبنگ خطاب فرمایا۔
وزیراعظم سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان نے اس اجلاس میں امتِ مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ وہ ایران کی سرزمین پر حملہ کرنے سے باز رہے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ ایران کی خودمختاری کو چیلنج کرنے سے اسرائیل اپنے آپ کو روک لے۔ مزید برآں! سعودی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف جناب فیاد الرویلی اس دوران ایران کے دورے پر تھے۔ وہاں ان کی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور فوجی تعاون پر گفتگو ہوئی ہے۔ بات باہمی محبتوں کی اس قدر آگے بڑھ چکی ہے کہ سعودی عرب کے وزیر دفاع خالد بن سلمان آل سعود نے میڈیا کو بتایا کہ دونوں ملکوں کے مابین اس قدر اچھے تعلقات استوار ہو چکے ہیں کہ سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی ملکوں سے مل کر بحری مشقیں کی ہیں اور ان مشقوں میں ایران بھی شامل تھا۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ ان مشقوں میں‘ جس کا اہتمام سعودی عرب نے کیا تھا‘ ایران نے بھی ان میں شرکت کی اور ان مشقوں میں روس اور سلطنتِ عمان بھی شامل تھے۔ یہ مشقیں شمالی بحر ہند میں ہوئیں‘ جن میں چھ دیگر ممالک بھی شامل تھے۔
اللہ اللہ! یہ ہیں صلح صفائی اور باہمی اعتماد کی اچھی خبریں۔ یہ اچھی خبریں جن شخصیات کی کوششوں سے ہمیں ملی ہیں‘ ہم انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ جناب جنرل سید عاصم منیر اور جناب شی جن پنگ‘ جو آگے بڑھے اور سعودی عرب اور ایران نے انہیں مثبت جواب دیا۔ اے اہلِ اسلام! آئیے! ہم بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپنے پاک وطن میں مذہبی‘ علاقائی اور لسانی دہشت گردی کو مات دینے کی کوشش کریں۔ مات دینے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ پاکستان زندہ باد! پاک چین دوستی زندہ باد! چاروں دوست زندہ باد‘ پائندہ باد!
تحریر:مولانا امیر حمزہ
Leave a Reply