سرکارِ مدینہﷺ اور ایک یہودی سردار

حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے‘ جن میں سے ایک کا نام لاوی تھا۔ جناب لاوی کی اولاد سے صدیوں بعد اللہ تعالیٰ نے دو بھائی پیدا فرمائے۔ یہ بھائی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام تھے۔ صدیوں بعد حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ایک قبیلہ وجود میں آیا جس کا نام ”بنو نضیر‘‘ پڑا۔ یعنی اولادِ ہارون ”بنو نضیر‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ نضیر کا معنی خوبصورت اور حسین وجمیل ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کوئی سو سال بعد فلسطین کے یہود کو وہاں سے نکالا گیا تو وہ دنیا بھر میں بکھر گئے۔ اٹلی یعنی ”روم‘‘ کے حکمرانوں نے یہود کو برباد کرکے رکھ دیا۔ بکھرے ہوئے قبیلوں میں سے ”بنو نضیر‘‘ یثرب آکر آباد ہو گیا کیونکہ انہوں نے تورات میں پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری رسول حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تشریف لائیں گے‘ جو عربی ہوں گے اور وہ یثرب کو اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔ چنانچہ حضورﷺ کا مبارک زمانہ پانے کیلئے یہ قبیلہ یثرب کے پاس آباد ہو گیا۔ حضورﷺ جب یثرب میں تشریف لائے تو ”بنو نضیر‘‘ کا سردار حییی بن اخطب تھا۔ حضورﷺ نے اس قبیلے سے معاہدہ کیا۔ یثرب جو اس وقت ‘مدینہ منورہ‘ اور ‘ طیبہ‘ بن چکا تھا‘ حضورﷺ نے اس شہر میں بنو نضیر کو تمام مراعات اور انسانی حقوق عطا فرمائے۔ ان کو مذہبی آزادی دی۔ معاہدے کی پاسداری کمال درجے پر تھی مگر اس کے باوجود یہود نے مدینہ کی حکومت اور سرکارِ مدینہﷺ کے جانثاروں کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشیں جاری رکھیں۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی حرکتوں کی وجہ سے جلاوطن کر دیے گئے۔ جلاوطنی کے بعد یہ قبیلہ ”خیبر‘‘ جاکر آباد ہو گیا کیونکہ صدیوں سے ”خیبر‘‘ یہود کا گڑھ تھا۔


سیرت ابنِ اسحاق اور ابنِ ہشام میں جناب عبداللہ بن ابی بکرؓ کی روایت ہے کہ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے باپ حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر کی لاڈلی تھی۔ باقی تمام بچوں کی نسبت وہ مجھ سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ وہ باہر سے آتے تو میں بھاگی بھاگی ان کے ساتھ لپٹ جاتی۔ باقی بچوں کو چھوڑ کر ابا اور چچا باری باری مجھے اٹھاتے اور پیار کرتے۔

حضورﷺ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو پہلا قیام قباء میں کیا۔ تب میری عمر سات سال تھی۔ علاقے بھر میں حضورﷺ کی آمد کی خبر پھیل چکی تھی۔ اگلے دن میرے ابا اور چچا صبح سویرے منہ اندھیرے حضورﷺ کے پاس گئے اور سارا دن وہیں ٹھہرے رہے۔ لوگ اور وفود آتے رہے اور حضورﷺ سے ملتے رہے۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتے اور جائزہ لیتے رہے۔ شام ڈھلے وہ واپس گھر آئے تو تھکے ماندے اور پریشان حال تھے۔ میں ان کی طرف بھاگی تو دونوں اس قدر غمناک تھے کہ میری طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ میں الگ ہو کر بیٹھ گئی کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ وہ بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔ میں نے چچا کو سنا وہ ابا سے پوچھ رہے تھے ”أَھُوَ‘أَھُوَ‘‘ کیا یہ وہی نبی ہیں (جن کا ذکر ہم تورات میں پڑھتے ہیں؟) اس پر ابا جی کہنے لگے ”نَعَمْ واللہ‘‘ اللہ کی قسم بالکل (یہ وہی ہیں)۔ پھر چچا نے پوچھا: کیا تم نے ان کو پہچان لیا اور ثبوتوں کے ساتھ پہچانا؟ ابا بولے: ہاں۔ اب چچا نے پوچھا: ان (محمدﷺ) کے بارے میں تمہارے دل کی کیفیت کیا ہے؟ اس پر میرے والد نے کہا: اللہ کی قسم مجھے ان سے عداوت ہے اور جب تک میں زندہ ہوں اس دشمنی میں زندہ رہوں گا۔ قارئین کرام! یہ وہ منظر ہے جس نے سات سالہ صفیہ بنت حیی پر واضح کر دیا کہ مدینہ منورہ کے جو نئے حکمران ہیں‘ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں اور ایسے رسول ہیں کہ جن کی آمد کا انتظار یہود صدیوں سے کر رہے تھے۔ اب جب وہ تشریف لے آئے تو انہیں پہچاننے کے باوجود یہود ان کے ساتھ دشمنی کو دل میں لے کر بیٹھ گئے۔ اب ایک ہی گھر میں دو دل تھے۔ ایک دل قبیلے کے سردار کا تھا جس میں حضورﷺ کی عداوت تھی اور دوسرا دل اس کی سات سالہ بیٹی کا دل تھا‘ جس میں حضورﷺ کی سچی نبوت کے ساتھ دلی میلان پیدا ہو گیا۔ یہ میلان حق سچ کا میلان تھا۔ جی ہاں! دل کی زمین میں صداقت ومحبت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ اور بیج بونے والا خود صفیہ کا باپ تھا۔


بنو نضیر جب مدینہ منورہ سے جلاوطن ہو کر خیبر گئے تو وہاں بھی قبیلے کے سردار نے دشمنی اور عداوت جاری رکھی۔ حتیٰ کہ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے ساتھ باغیانہ مشورے اور پروگرام بناتا رہا۔ مکہ کے قریش کو بھی مدینہ پر چڑھائی اور حملوں کی دعوت دیتا رہا۔ آخرکار حضورﷺ نے خیبر پر حملے کا پروگرام بنایا۔ پھر جب حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ نے فتح کے جھنڈے گاڑے اورسب سے مضبوط قلعہ قموص ضربِ حیدری سے کھلا تو یہاں دو سو خواتین اور بچے موجود تھے۔ ان سب کو حفاظت‘ محبت اور امن کا تحفہ دیا گیا۔ انہی میں حضرت صفیہؓ بھی تھیں‘ جو اَب 18‘ 19 سال کی خاتون تھیں۔ ان کا باپ‘ چچا‘ خاوند اور قبیلے کے بیشتر لوگ مارے جا چکے تھے۔ ادھر حضورﷺ کی مجلس میں فتح کے بعد صورتحال پر بنو نضیر قبیلے کے سردار کی بیٹی صفیہ کی بات بھی ہوئی۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! بنو نضیر کے سردار کی بیٹی کو اپنا کر آپ اس کی دلجوئی کریں۔ حضورﷺ نے حضرت بلالؓ کو بھیجا وہ گئے اور حضرت صفیہ اور ان کی چچا زاد بہن کو بلا لائے۔ وہ آگے آگے تھے‘ پیچھے پیچھے حضرت صفیہؓ اپنی چچا زاد بہن کے ہمراہ چل رہی تھیں۔ جب راستے میں انہوں نے اپنے خاندان اور قبیلے کے لوگوں کی لاشیں دیکھیں تو دونوں واویلا کرتے ہوئے دھاڑیں مار کر رونے لگیں۔ کچھ دیر بعد حضرت بلالؓ ان دونوں کو لے کر حضورﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ ابن ہشام‘ تاریخ طبری اور حافظ ابن کثیر کی تاریخ ”البدایہ والنھایہ‘‘ میں ہے کہ حضور رحمت دو عالمﷺ نے ناراض اور غضبناک ہوتے ہوئے کہا: اے بلال! کیا تیرے دل سے اس وقت رحمت کو چھین لیا گیا تھا جب تو دو خواتین کو ایسے راستے سے لے کر گزر رہا تھا جہاں ان کے مرد قتل ہوئے پڑے تھے؟‘‘ لوگو! حضورﷺ کی ڈانٹ اور غضب نے واضح کر دیا کہ جنگ کے دوران بھی فطری انسانی ہمدردی کو فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ رحمت‘ گداز دلی اور انسانی احساسات کی تکریم ضروری ہے۔ حضرت صفیہؓ اور ان کی چچا زاد بہن کو حوصلہ ملا کہ حضور کریمﷺ ایسے فاتح اور حکمران ہیں کہ ان کی حکمرانی اور فتح میں رحمت اور نرم دلی کے نگینے جڑے اور چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔


حضورﷺ نے حضرت صفیہؓ کو ”اختاری‘‘ کے لفظ سے اختیار دیا کہ اگر تم اسلام قبول کر لو تو میں تمہیں اپنی زوجہ بنا کر رکھ لوں گا۔ اگر یہودیت کو ہی پسند کرو تو تمہیں تمہاری قوم کے پاس واپس پہنچا دوں گا۔ یہ سنتے ہی حضرت صفیہؓ بولیں: اے اللہ کے رسولﷺ! میں جب آپ کی جانب چل پڑی تھی تو اسلام کی جانب چل پڑی تھی۔ آپ کی دعوت سے قبل ہی آپ کو سچا رسول مان چکی تھی۔ آپ نے مجھے کفر یا اسلام کو اختیار کرنے کی آزادی دی مگر مجھے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ آزادی سے کہیں بڑھ کر محبوب ہیں۔ مجھے اپنی قوم کی نسبت آپﷺ کے ساتھ جانا پسند ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں میرے لیے کیا رکھا ہے‘ اکثر تو مارے جا چکے ہیں۔ (طبقات ابن سعد)


اللہ کے رسولﷺ نے جب مدینے کا سفر اختیار فرمایا تو بیٹھ کر اپنا گھٹنا پیش کیا کہ اے صفیہ! یہاں اپنا پائوں رکھو اور اونٹ پر سوار ہو جائو۔ یہود کے ظلم کے خلاف ان کے سردار کی بیٹی کیلئے تکریم کے کیا کیا مناظر سرکارِ مدینہﷺ نے دکھائے۔ مدینہ منورہ پہنچے تو حضورﷺ کے کہنے پر ازواجِ مطہراتؓ نے حضرت صفیہؓ کو تحائف دیے۔ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے اپنے کانوں کے کانٹے اتار کر نئی دلہن کو پہنا دیے۔ اللہ اللہ! میں سوچ رہا ہوں کہ سات سالہ صفیہ نے حق کی آواز اپنے باپ سے سنی تو اس کو دل میں سنبھال کر رکھا اور آج وہ ایک ملکہ بن کر واپس مدینہ آ چکی تھیں۔


اے اسرائیل کے یہود! ذرا بتلائو تو سہی۔ غزہ اور جنوبی لبنان میں تمہارا کیا کردار ہے۔ اللہ کی قسم! ظالمانہ ہے‘ عالمی عدالت انصاف کا وارنٹ دیکھ لو۔ اے اللہ! ہمیں کو حضور کریمﷺ کا کریمانہ رویہ عطا فرما دے‘ آمین۔

تحریر:مولانا امیر حمزہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.