دماغ میں شجر اور دہشت گرد

اللہ تعالیٰ نے ”سورۃ الرحمن‘‘ کے آغاز ہی میں آگاہ فرمایا کہ ”پودے اور درخت (اللہ کے سامنے) سجدہ ریز ہیں‘‘۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ نے زمین کو زینت عطا فرمائی تو درختوں‘ پودوں‘ جڑی بوٹیوں‘ گھاس اور گلستانوں سے زینت عطا فرمائی۔ باغوں‘ فصلوں اور چمنستانوں میں نہریں اور ندی نالے چلا کر رونق اور حسن کو مزید چار چاند لگا دیے۔ بالکل ایسی ہی زینت ہمارے دماغ کے اندر بھی ہے‘ تبھی تو ہمارے دماغ کو جب زمینی تصویریں آنکھ کے ذریعے دیکھنے کو ملتی ہیں تو دماغ میں فرحت و سرور کا احساس ہوتا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ کا ایک ادارہ ہے جس کا نام Queensland brain Institute ہے۔ اس ادارے کی ریسرچ کو ڈاکٹر الان وڈرف نے شائع کیا ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق ہر انسان کے دماغ میں کوئی 100ارب کے قریب نیورونز ہیں۔ ہر نیورون ایک درخت کی مانند ہے۔ اس درخت کے تین مرکزی حصے ہیں؛ جڑیں‘ تنا اور شاخیں۔ ان شاخوں پر پتے بھی ہیں۔

جی ہاں! نیورون ایک درخت ہے تو اس درخت کی جڑوں‘ شاخوں اور ان پر پتوں وغیرہ کو بھی شمار کیا جائے تو تعداد کھربوں میں بنے گی۔ یعنی یہ تعداد ریت کے ذرات اور آسمان کے ستاروں کی تعداد کو چھونے کے قریب ہو جائے گی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس لحاظ سے ہم سوچیں تو ہر انسان کے سر میں جو دماغ ہے‘ وہ لاتعداد درختوں کا ایک بہت بڑا جنگل ہے۔ اگر ان درختوں کو زمین پر لگانا ممکن ہو جائے تو ہماری زمین نئی قسم کے درختوں سے بھر جائے۔

زمینی درخت دریائوں‘ نہروں اور ندی نالوں سے سیراب ہوتے ہیں اور ہمارے دماغ کے جنگلات خون کی شریانوں سے سیراب ہوتے ہیں۔ دماغ میں نیورون درختوں کی شاخوں کے جو پتے ہیں ان کا آخری سرا کہیں سے معلومات لیتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ وہ یہ معلومات بیرونی دنیا سے لیتا ہے۔ انسانی دماغ کے بنیادی طور پر تین حصے ہیں۔ جو سب سے بڑا حصہ ہے اسے Forebrain کہا جاتا ہے اور یہ حصہ پیشانی کے پیچھے ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ”کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی کو اس نے پکڑ نہ رکھا ہو‘‘ (ہود: 56)۔ یعنی ہر ایک دماغ اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

انسان کا بیالوجیکل ڈھانچہ دیکھا جائے تو اس کی کھوپڑی پر جو بال ہیں یہ ایسی فصل ہے جو شریانوں جیسے خونی دریائوں اور نالوں سے سیراب ہوتی ہے۔ اس ڈھانچے کی جڑیں پائوں اور ان کی انگلیاں ہیں‘ جہاں ناخن موجود ہیں۔ سر کے بالوں اور پائوں کے ناخنوں کو ہمیں بہرحال کٹوانا پڑتا ہے۔ زائد بالوں کو کاٹا نہ جائے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کوترشوایا نہ جائے تو انسان کی ہیئت غیر فطری ہو جاتی ہے۔ ایسے انسان پر شیطان کا غلبہ ہو جاتا ہے لہٰذا ظاہری ہیئت کا فطرت کی جانب لوٹنا ضروری ہے۔

انسانی معاشرہ بھی اسی طرح ہے‘ وہ بہت سارے انسانوں کا ایک مجموعی درخت ہے۔ خزاں کے موسم میں درخت عموماً سوکھ جاتے ہیں۔ جونہی بہار کی آمد ہوتی ہے تو درختوں کی تراش خراش لازم ہو جاتی ہے کیونکہ اگر انہیں چھانگا نہ جائے تو ان کی شکل و صورت بگڑ جاتی ہے۔ چھانگنے کے بعد نئی شاخیں اور نئے پتے نمودار ہوتے ہیں۔ درخت پھول اور پھل کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔

ہم اگر اپنے ملک پاکستان کو ایک درخت تصور کریں کہ جس کا پھل اہلِ وطن کھاتے ہیں‘ جس کے سائے میں ہم بیٹھتے ہیں تو اس درخت کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ اسے چھانگنا بھی ضروری ہے۔ اس تک معاشی نہروں کے ذریعے پانی پہنچانا بھی ضروری ہے۔ اس کی حفاظت کا کام اور چھانگنے کا کام سکیورٹی کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ یہ کام ہو گا تو درخت کو بہار کا موسم مل سکے گا۔ موجودہ موسم بہار کا موسم ہے۔

رمضان کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ اسلامی اور قرآنی بہار کا موسم ہے۔ عمومی سرکل کو دیکھیں تو تب بھی بہار کا موسم ہے۔ پاکستانی درخت کو موسمِ بہار میں داخل کرنے کے پابند جو لوگ ہیں‘ وقت کا دھارا یہی سبق دے رہا ہے کہ ان کیساتھ پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑا ہوا جائے تاکہ ہم معاشی بہار کے موسم میں داخل ہوں۔

یاد رکھیں! یہ وقت باہم لڑنے کا نہیں‘ باہم جڑنے کا ہے۔
انسانی دماغ کی جانب آئیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔انسان کو سچا خواب آتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے اسے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا ہے۔ نبوت و رسالت ہمارے حضور نبی کریم ﷺ پر ختم ہے مگر چھیالیسواں حصہ‘ جو صرف سچے خوابوں پر مشتمل ہے‘ وہ باقی ہے۔ سچا خواب اسے دکھائی دیتا ہے جو زندگی کے معاملات میں سچا ہو‘ جھوٹ اور دغا فریب نہ کرتا ہو۔

دومونہے سانپ کی طرح دومونہوں والا نہ ہو۔ لوگوں کا حق کھانے والا نہ ہو۔ پاکدامن ہو۔ ضرورتمندوں‘ مسکینوں‘ یتیموں‘ بیوائوں اور کمزوروں کے کام آنے والا ہو۔ جس کی زندگی ظلم پر مبنی ہو اللہ تعالیٰ ایسے ظالم‘ فاسق اور فاجر انسان کو اس کی شیطنت کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اسے پھر ظلم اچھا لگتا ہے۔ انسانیت کے ساتھ دشمنی اچھی لگتی ہے۔

شیطان بہت بڑا سیاست کار اور چالباز ہے۔وہ اس کے دماغ میں گھس جاتا ہے اور انسانیت کش ظالمانہ اقدامات کو مزین بنا کر اسے کہتا ہے کہ تم بہت اچھا کر رہے ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے دو ڈوزیں تیار رکھنا ہوں گی۔ ایک نظریاتی ڈوز ہے اور دوسری عملی ڈوز۔ نظریاتی ڈوز دیتے ہوئے پہلے دیکھنا ہوگا کہ یہ جو خود کش بنا ہے‘ جس نے چینی مہمانوں کو نشانہ بنایا حالانکہ وہ تو پاکستانی درخت کی شریانوں میں معاشی خون رواں کرنے آئے تھے‘ یہ تو ہمارے محسن تھے۔

ہمارے حضور نبی کریمﷺ کے پاس مدینہ منورہ میں غیر مسلم مہمان آئے۔ ہر منصب کے لوگ آئے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ان کو کھانے کھلائے‘ اعلیٰ اخلاق کے نمونے پیش کیے۔ آخری وصیتوں میں ایک یہ وصیت فرمائی کہ وفود کا احترام کرنا‘ مہمان چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم‘ وہ مہمان ہے۔ فرمایا: جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔

یقین جانیں! چینی بھائیوں پر حملہ ہم اہلِ پاکستان کیلئے انتہائی دکھ اور شرمندگی کا باعث ہے۔ ہم مرنے کے بعد اپنے رب اور رسول کریمﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ نیشنل ایکشن پلان‘ جو دہشت گردی کے خلاف بنایا تھا‘ اس میں ہم کامیاب ہوئے تھے۔ہم نے اس وقت ہی بتایا تھا کہ ہم ایسی قوم ہیں کہ جو وقتی کامیابی حاصل کرکے خاموش ہو جاتی ہے جبکہ خطرات ختم نہیں ہوئے اور یہ فتنہ دوبارہ اٹھے گا تو اس کا نظریاتی اور جسمانی وجود راہِ راست پر لانا مشکل ہو جائے گا۔ ہماری غفلت کی وجہ سے وہی ہوا۔

میری گزارش ہے اب جامع پلان بننا چاہئے۔ نظریاتی پلان کے سلسلے میں اشارہ کیے دیتا ہوں کہ میں نے الحمد للہ خراسان کے بارے میں بتا دیا تھا کہ اس ضمن میں دو احادیث ہیں اور دونوں کی سند محدثین کے ہاں کمزور ہے۔ اس قدر کہ اس سے استدلال کرنا بالکل غلط ہے۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے میڈیا نے اس تحقیق اور ریسرچ سے فائدہ اٹھایا؟ بالکل بھی نہیں!


یاد رکھیں! دماغ میں نیورونز کی دو اقسام ہیں۔ اسی طرح ریڑھ کی ہڈی میں بھی نیورونز کی دو اقسام ہیں۔ ان کی آگے پھر کئی کئی اقسام ہیں۔ نیورونز سے نکلے ہوئے کرنٹ اور لہریں ریڑھ کی ہڈی کے اختتام تک جاتے ہیں اور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں۔ دماغ سے یہی کرنٹ بازوئوں‘ دل اور تمام اعضا میں جاتے ہیں۔ دماغ میں جو نظریہ بنا دیا گیا ہے‘ وہ انسانیت کا خون بہانے پر تیار ہے۔ اسے نظریاتی ڈوز سے ڈِس انفیکٹ کیا جائے۔

پاکستان کے وجود میں اسے مزید سرایت کرنے سے روکا جائے۔ یہ نظریاتی دعوت سے رک جائے گا۔ رہا عملی قدم تو اس کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔ پہلے ہوم ورک کیا جائے‘ گلے شکوے اور غلط فہمیاں دور کی جائیں تاکہ سب اہلِ پاکستان یک زبان اور یک قدم ہو کر آگے بڑھیں۔ پہلے کی طرح آگے بڑھیں گے تو کامیابی اللہ تعالیٰ دیں گے اور ضرور دیں گے۔ ہم مخلص ہوں تو ضرور‘ ان شاء اللہ!

تحریر:مولانا امیرحمزہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.