اللہ کی اونٹنی اور حضرت علیؓ

اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کیا‘ نمازِ عیدالاضحی کی امامت کرائی اور عید کے دن ہی بلتستان کا رخ کر لیا۔ سڑکیں خالی تھیں لہٰذا جلد ہی سکردو میں تھا اور پھر وہاں پہنچ کر قربانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ جس محلے میں رہائش پذیر ہوا‘ وہاں کے رہائشیوں کے ساتھ گوشت کے تحائف کا تبادلہ ہوا۔ جمعہ کا دن آیا تو خطبۂ جمعہ وادیٔ شِگر کے علاقے باقر آباد میں دیا۔ اس وادی کو بلتستان کا پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ چیری کے باغات لدے پھندے تھے۔ جہاں بھی گیا تازہ چیری کھانے کو ملی۔ یہ پھل قوت اور انرجی سے مالا مال ہے۔ اس وادی کے درمیان جو دریا بہتا ہے‘ اسے دریائے شِگر کہا جاتا ہے۔ یہ بہتے بہتے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔

دریائے شِگر کی چوڑائی کہیں آدھ کلو میٹر تو کہیں تین سے چار کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ 25‘ 30کلو میٹر تک طویل اس وادی کے دریا کو اگر محدود کرکے نصف کلو میٹر یا اس سے بھی کم کر دیا جائے تو یہ وادی صرف بلتستان ہی نہیں بلکہ گلگت کو بھی گندم مہیا کر سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت ایسا کر دے تو گلگت بلتستان کو جو گندم رعایتی نرخوں پر مہیا کی جاتی ہے‘ اس کی ضرورت نہیں رہے گی اور وادیٔ شِگر گلگت بلتستان کا پنجاب بن کر گندم وافر مقدار میں مہیا کر دے گا۔

اس بار میں نے اپنے آپ کو وادیٔ شِگر تک ہی محدود رکھا۔ ایک گاؤں میں ‘استحکامِ پاکستان‘ کے موضوع پر نوجوانوں سے خطاب کیا۔ اس وادی کے راجا کا قلعہ اور ایک خوبصورت باغ بھی دیکھا۔ عبدالرشید اور رضوان ہمراہ تھے۔ ایک شادی میں شرکت کی‘ جہاں صوبائی وزیر تعلیم اور علاقے کے ممتاز علما اور عمائدین سے ملاقات ہوئی۔


وادیٔ شِگر کے دونوں جانب سر بفلک پہاڑ ہیں۔ یہ پہاڑ اپنی سختی‘ خشکی اور صلابت میں سعودی عرب کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان پہاڑوں سے بعض مقامات پر چشمے‘ آبشاریں اور جھرنے بہتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں بعض جگہوں پر چھوٹے چھوٹے ریگستان بھی ہیں۔ چوٹیوں کی بلندیاں اونٹوں کی کوہانوں سے مشابہ ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے قطار در قطار‘ دونوں جانب اونٹ لائن بنائے کھڑے ہیں۔ ان کی کوہانیں پانی سے بھری ہوئی ہیں اور ٹانگیں صحرائی ریت پر ہیں۔ جب چاہیں چشموں اور دریا کا پانی پی لیں۔ جب چاہیں وادیوں کی ہریالی کو اپنی خوراک بنا لیں۔ ایسے مناظر میرے سامنے تھے تو بار بار ”سورۃ الغاشیہ‘‘ کا منظر میرے سامنے آ جاتا تھا۔ مولا کریم ہم انسانوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ”یہ لوگ اونٹ کی جانب (غور وفکر کرتے ہوئے) کیوں نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے پیدا کیا گیا ہے۔ آسمان کی جانب (کیوں نہیں دیکھتے) کہ اسے کیسے بلند کیا گیا ہے۔ پہاڑوں کی جانب (کیوں نہیں دیکھتے) کہ انہیں کیسے گاڑا گیا ہے؟ اور زمین کی جانب (سمندر‘ دریا‘ میدان اور صحرا وغیرہ پر غور کرتے ہوئے کیوں نہیں دیکھتے) کہ اسے کس طرح بچھایا گیا ہے؟‘‘۔ (الغاشیہ: 17 تا 20)

قارئین کرام! قرآنِ مجید کے مناظر اور وادیٔ شِگر کے مناظر کے درمیان جب میں نے اونٹ کو رکھ کر دیکھا تو کمال مشابہت تھی جو قرآنِ مجید نے بیان فرمائی۔ سعودی عرب کی سرزمین پر ہزاروں سال قبل ایسی ہی وادیاں تھیں۔ قوم خوشحال تھی مگر بت پرست تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو اس قوم کی جانب رسول بنا کر بھیجا۔ اس قوم نے‘ جس کا نام ثمود تھا‘ اللہ کے رسول سے ایک معجزہ مانگا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کی چوٹی سے ایک اونٹنی نکال دی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ایک دن گھاٹ کا سارا پانی اونٹنی پیے گی اور ایک دن باقی سب لوگ اور ان کے مویشی۔ اس پر قوم کے لوگ بگڑ گئے۔ چنانچہ ”ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے (رسول اور معجزانہ اونٹنی کو) جھٹلا دیا۔ ان میں جو بڑا پتھر دل بدبخت تھا وہ اٹھا۔ تو اللہ کے رسول (صالح علیہ السلام) نے (ان لوگوں کو خبردار کیا اور) کہا کہ یہ اللہ کی (معجزانہ) اونٹنی ہے‘ اس کے پینے کی باری کا خیال رکھو۔ مگر ان لوگوں نے رسول کی بات کو جھٹلا دیا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو اس جرم کی وجہ سے (آٹے کی طرح) پیس کر رکھ دیا اور انہیں (ہلاک کر کے) زمین کے ساتھ برابر کر دیا‘‘ (الشمس: 11 تا 14)۔


وادیٔ شِگر میں ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ سب سے بڑی نعمت امن ہے‘ تم لوگوں کے پاس زندگی کے وسائل باقی ملک کی نسبت کم ہیں مگر یہاں ظالم وڈیروں کا وہ نظام نہیں ہے جو ملک کے بعض علاقوں میں ہے۔ جیسا کہ سندھ کے ایک وڈیرے نے ایک اونٹنی کی ٹانگ کاٹ دی‘ محض اس بات پر کہ ایک غریب کی اونٹنی وڈیرے کی زمین پر گھاس چرنے چلی گئی تھی۔ ظلم کی ایسی داستانیں ہم پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی دیکھتے رہتے ہیں مگر گلگت بلتستان ایسی وڈیرہ شاہی سے پاک ہے۔ چوری چکاری کا نام و نشان تک نہیں‘ قتل کی وارداتیں نہیں ہوتیں‘ خاندانی اور سیاسی دشمنیاں نہیں ہیں۔ پولیس تھانوں میں جھوٹی شکایتیں اور ایف آرز نہیں ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ اس قدر پُرامن قوم اور علاقہ ہے کہ ایک مثال ہے۔ ایک دو بار امن غارت کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر اس سمجھدار قوم نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ یہ کوششیں ناکام بنانے میں راقم کا بھی الحمدللہ کچھ حصہ رہا‘ اس کی تفصیل کا موقع نہیں۔ میں شِگر سے واپس آیا تو حکومت کو ”عزمِ استحکام‘‘ کی کوشش میں کوشاں پایا۔ میری گزارش ہے کہ دہشت گردی کا قلع قمع بھی ضروری ہے مگر مستقل امن کے لیے پاک وطن کے نظام کو درست اور عادلانہ کیا جائے۔ اس سے استحکامِ پاکستان کو استقرار ملے گا‘ ان شاء اللہ

!
‘مسلمانوں میں سے ایک گروہ اٹھے گا اور کفر کے فتوے لگا کر مسلمانوں پر قاتلانہ حملے کرے گا‘۔ اس کی پیش گوئی حضور نبی کریمﷺ نے پہلے ہی فرما دی تھی۔ حضرت علی‘ حضرت عمار بن یاسر‘ حضرت صہیب رومی اور دیگر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی ایک مجلس میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو اللہ کے رسولﷺ نے انہیں اپنی ایک جانب بٹھا لیا اور مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: اے علی! پہلے لوگوں میں سب سے بڑا پتھر دل بدبخت کون تھا؟ حضرت علی المرتضیٰؓ نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس پر سید الانبیاءﷺ نے فرمایا: (قومِ ثمود میں سے) اونٹنی کی کونچیں (ٹانگیں) کاٹنے والا سب سے بڑا بدبخت تھا۔ پھر آپﷺ نے پوچھا: آخری لوگوں میں سب سے بڑا پتھر دل بدبخت کون ہو گا؟ اس پر حضرت علیؓ نے پہلے کی طرح عرض کی: اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص‘ جو اے علی! تجھ پر حملہ آور ہوگا۔ پھر آپﷺ نے اشارہ کیا اپنے ہاتھ کے ساتھ کہ یہ داڑھی یہاں سے یہاں تک خون آلود ہو جائے گی‘‘۔ (سلسلہ صحیحہ‘ مسند احمد‘ مستدرک حاکم‘ طبقات)

قارئین کرام! یہ شخص جو قیامت کے دن تک سب سے بڑا بدبخت اور پتھر دل تھا‘ یہ عبدالرحمن بن ملجم مرادی ملعون تھا جس نے حضرت علی المرتضیٰؓ پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ یہ خارجی تھا۔ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں پر کفر کے فتوے لگاتا تھا۔ جی ہاں! یہ فتنہ مسلمانوں کے اندر گزشتہ چودہ سو سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس فتنے سے اسلام بھی بدنام ہوتا ہے اور مسلمان بھی بدنام ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس فتنے نے بڑا نقصان کیا ہے۔ مداوا اسی طرح ممکن ہے کہ پاکستان کے سیاسی‘ عدالتی‘ معاشی اور معاشرتی نظام کو عدل کے ساتھ باندھا جائے۔ رواداری‘ برداشت اور حوصلہ مندی کو رواج پذیر کیا جائے۔ مذہب کے نام پر ہجومی لوگ‘ جو لوگوں کو قتل کرتے ہیں‘ اس کی سزائیں سرعام دی جائیں۔ وڈیروں کا ظلم جو اونٹنی اور گدھے تک پہنچ گیا ہے‘ اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ جب تک عام لوگوں کو عدل نہیں ملے گا تب تک پتھر دل بدبختی ہمارے معاشرے کی جان نہ چھوڑے گی۔ آئیے اس بدبختی سے ہم اپنے پاک وطن کو پاک کریں۔

تحریر مولانا امیر حمزہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.