مُورا‘ جھاواں اور بنگلہ دیش

بھینس نے کٹے کو جنم دیا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ کٹا مر گیا۔ بھینس کے مالک نے کیا کیا‘ اس نے کٹے کی کھال اتاری‘ گوشت جانوروں کو کھلا دیا جبکہ کھال میں بھوسا بھر کر اسے سی دیا۔ چاروں ٹانگوں میں چار ڈنڈے رکھ کر انہیں بھی سی دیا۔ اب دیکھنے کو یہ کٹا لگتا تھا۔ اوپر کی کھال تو اصلی تھی مگر اندر بھوسا بھرا تھا؛ چنانچہ بھینس اسے اپنا اصلی بچہ یعنی کٹا سمجھنے لگ گئی۔ بھینس کا مالک دودھ دوہنے سے قبل یہ جعلی کٹا بھینس کے آگے ذرا فاصلے پر کھڑا کر دیتا اور دودھ دوہ لیتا۔ دودھ دوہنے کے بعد کٹے کو اٹھاتا اور چھپا دیتا۔ اسے پنجابی زبان میں ”مُورا‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اندر سے مرا ہوا۔ کنایۃً نااہل انسان کو بھی ”مُورا‘‘ کہا جاتا ہے۔

جہاں تک ”جھاواں‘‘ کا تعلق ہے تو یہ گھیا توری نامی سبزی سے بنتا ہے۔ گھیا توری پھیل کر بڑی ہو جاتی اور پک جاتی ہے تو اس کو دبانے سے اس کا چھلکا چٹخ کر الگ ہو جاتا ہے۔ اب اس کے بیچ اگلے سال کام دیں گے‘ جبکہ اس کے اندر کے ریشے باہم قدرتی بندھن کے ساتھ ایسے ہوتے ہیں جیسے سلے ہوئے ہیں۔ بیج اور گودے سے خالی اس شے کو پنجابی میں ”جھاواں‘‘ کہا جاتا ہے۔ صابن لگا کر جھاواں استعمال کریں تو جسم سے میل کچیل صاف ہو جاتا ہے۔ اب تو نائلن کے جھاویں بھی بازار سے مل جاتے ہیں۔

ویسے تو دنیا بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں میں پارٹی کا سربراہ ایسے مورے اور جھاویں استعمال کرتا ہے مگر بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے ان موروں اور جھاووں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ کر دیا تھا۔ اہل لوگ ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے ذلیل وخوار ہو رہے تھے جبکہ مُورے اور جھاویں پچاس فیصد سے زائد کوٹے کے تحت سرکاری ملازمتوں میں بھرتی ہو رہے تھے۔ حکمران پارٹی کے عہدوں پر بھی ایسے ہی مورے اور جھاویں چھا چکے تھے۔ ان کے خلاف دو دفعہ تحریک اٹھی مگر مظاہرین کے قتل اور وحشت کے ساتھ دبا دی گئی۔

جماعت اسلامی‘ جس نے 1971ء میں علیحدگی کی تحریک کے خلاف کردار ادا کیا تھا‘ شیخ مجیب الرحمان نے اپنے دورِ حکومت میں اسے غدار کہا۔ بیٹی حسینہ واجد اس قدر آگے بڑھ گئی کہ ان لوگوں کو پھانسیاں دے دی گئیں۔ ان کو ”رضاکار‘‘ کہا جاتا تھا۔

اب بنگلہ دیش کے لوگوں نے احتجاج کے دوران ”ہم سب رضاکار ہیں‘‘ کے نعرے لگا دیے۔ پاکستان کے جھنڈے لہرا دیے۔ شیخ مجیب کے مجسمے‘ جو بنگلہ دیش میں جگہ جگہ تھے‘ وہ توڑ دیے گئے۔ حسینہ واجد بھاگ کر انڈیا پہنچ گئی۔ طلبہ نے حسینہ واجد کے بھاگنے پر اپنی تحریک کو ختم نہیں کیا بلکہ مورا اور جھاواں قسم کی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا الٹی میٹم دیا۔ چنانچہ اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ مُورا اور جھاواں قسم کا وزیراعظم بھی انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر محمد یونس کا نام تجویز کیا ہے‘ جو نوبیل انعام یافتہ ایسی عالمی شخصیت ہیں جن کے پاس اہلِ بنگلہ دیش اور عالمی اداروں کا خراجِ تحسین ہے کہ اس بے لوث اور دیانتدار آدمی نے بنگلہ دیش کی غربت کو ختم کرنے کے لیے لاجواب کردار ادا کیا۔ حسینہ واجد کے ”مُورا اور جھاواں‘‘ سیاسی کلچر نے ڈاکٹر یونس کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا‘ یہ اب ملک کے نامزد عبوری سربراہ ہیں۔

آج ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کو دیکھتے ہیں تو ویسے تو یہاں ”موروں اور جھاووں‘‘ کی تعداد لاتعداد ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کا صوبہ جس کی آبادی ملک کی کل آبادی کے نصف کے قریب ہے‘ وہاں کا حکمران یعنی وزیراعلیٰ ایک ایسا شخص بنا دیا جاتا ہے جو میٹرک پاس تھا اور جو اپنا ملزم چھڑانے کے لیے خود تھانے پہنچ جایا کرتا تھا۔ ایک نوجوان صرف اس بنیاد پر وزیراعلیٰ بنا کہ اس کا تعلق ایک حکمران خاندان سے تھا۔ ایک شخص کو اچانک پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا جس کو یہ تک پتا نہیں تھا کہ یورپی یونین نامی کوئی ملک ہے یا کیا بلا ہے؟ وہ اس کے وفد کے سامنے پوچھ رہا تھا: یورپی یونین نامی ملک کہاں واقع ہے؟ الغرض ایسے بے نام اور جھال لوگ ہمارے حکمران بنتے رہے اور آج بھی بن رہے ہیں۔ یاد رہے ! سب سے بڑی کرپشن‘ سب سے بڑی خیانت اور بددیانتی یہ ہے کہ اہل لوگوں کی موجودگی میں نااہلوں کو ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔ ایسے لوگ اربوں کی کرپشن کرتے ہیں تو کھربوں کا نقصان اپنی نااہل حکمرانی کے فیصلوں سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کو انتہائی مہنگے پڑتے ہیں۔ اس مہنگی ترین کرپشن سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جماعتوں میں انٹر پارٹی الیکشن ہوں‘ یہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہو۔

پاکستان کی سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ دکھلاوے کا الیکشن ہوتا ہے‘ بلا مقابلہ انتخاب ہوتا ہے‘ جماعت کا سربراہ ساری زندگی کے لیے سربراہ رہتا ہے۔اہم ذمہ داریوں پر رشتہ دار اور دوست نظر آتے ہیں جن کی کثیر تعداد مُورا اور جھاواں ہوتی ہے۔
جماعت اسلامی جو اپنی تاسیس کے آٹھ عشروں بعد بھی پورے قد کاٹھ سے کھڑی ہے‘ حافظ نعیم الرحمن اس کے نئے امیر منتخب ہوئے ہیں۔ کارکردگی اور اخلاص کی بنیاد پر کارکنان نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ انتخاب آئی پی پیز کے نظام میں اب شگاف ڈال رہا ہے۔ شگاف زدہ لوگ سہمے مگر ڈٹے بیٹھے ہیں۔ان کی کرسیوں کے پایوں میں کافی لمبے کیل ٹھکے ہوئے ہیں۔ مجھ جیسے محبت وطن اور اہلِ درد طبقات کی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ ہمارا مُورا اور جھاواں سسٹم اس طرح بدل جائے کہ 2024ء کا اگست ہم سب کے پیارے وطن کو اونچی اڑان اُڑا دے۔

سید مودودیؒ کو زیادہ تر لوگ ایک عالم دین کے حوالے سے جانتے ہیں۔ بعض لوگ انہیں انیسویں صدی کے مجددین میں سے ایک گردانتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ان کا سب سے بڑا تجدیدی کام ”پُرامن انتقالِ اقتدار‘‘ کا وہ طریقہ کار ہے جو کتاب و سنت‘ خلفائے راشدین اور موجودہ جمہوری نظام کو سامنے رکھ کر اختیار کیا گیا۔ وہ اس میں اس قدر مخلص اور بے لوث تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں‘ اپنی ذات سے اس کا آغاز کیا۔ وہ اراکینِ جماعت کے ووٹوں سے پانچ سال کیلئے امیر منتخب ہوتے رہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ جماعت کے لوگ انہیں ہی منتخب کرتے رہیں گے تو ان کی دوررس سیاسی نگاہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اب مزید امیر نہیں بنیں گے بلکہ مامور بن کر زندگی گزاریں گے۔ چنانچہ ان کی زندگی ہی میں میاں طفیل محمد جماعت کے امیر منتخب ہو گئے۔

مولانا مودودی نے اپنے آپ کو ان کا مامور بن کر دکھلایا۔ اس عمل کا نتیجہ ہے کہ آج حافظ نعیم الرحمن اسلام آباد میں کھڑے جماعت کو عوامی چٹان بنا چکے ہیں۔ سید مودودیؒ کے رشتہ دار تو کجا‘ ان کے بیٹے بھی نہ ان کی زندگی میں نہ ہی ان کے بعد جماعت کے عہدوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بعد جتنے بھی امیر بنے‘ سب کے رشتہ دار اور بیٹے وغیرہ کارکن بن کر تو نظر آئے مگر مراعات یافتہ طبقہ بن کر دکھائی نہیں دیے۔ دنیا میں جن ملکوں نے ترقی کی ہے‘ شفاف جمہوری نظام کے ذریعے ہی کی ہے۔ میرٹ کی راہ کو کارپٹ روڈ بنا کر ہی ترقی کی ہے۔

قائداعظم ؒ ایسی ہی سڑک پر چلنے کی ہدایت کرکے گئے۔ لیاقت علی خاں اسی راہ کے راہی تھے۔ اس راہ میں پارٹی کیلئے وصیتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ وصیت اپنے ذاتی مال پر ہوتی ہے وہ بھی ایک حد تک‘ ملک اور جماعت کے وارث عوام اور کارکن ہوتے ہیں۔ ان کے مستقبل کے فیصلے وصیتوں سے نہیں ہوتے۔ مشاورت اور میرٹ کی حامل شورائیت سے ہوتے ہیں۔2024ء کے یومِ آزادی کا یہی پیغام ہے۔ اسے نظرانداز کیا گیا تو ”مُورا اور جھاواں‘‘ کلچر وطن عزیز کی بلند پروازی میں رکاوٹ بنے گا۔ جھاواں بن کر آمرانہ وجود منظرنامے پر چھایا رہے گا تو عظیم پاکستان کا خواب ادھورا رہے گا۔

تحریر:مولانا امیر حمزہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.