اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے لاتعداد شاہکار ہیں۔ ان شاہکاروں میں ایک انسانی وجود ہے۔ ارشاد گرامی ہے ”ہم عنقریب ان لوگوں (توحید و رسالت کے منکروں) کو کائناتی آفاق میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے اور خود ان کے وجود میں بھی دکھلائیں گے۔ (اس قدر دکھلاتے چلے جائیں گے کہ ان منکروں پر) اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ بلاشبہ یہ (اللہ کی ذات‘ اس کا نازل کردہ قرآن اور رسول) برحق ہیں۔ (میرے رسولﷺ) کیا تیرے رب کے بارے میں (دلائل کے انبار) کافی نہیں (ہو گئے) کہ بلاشبہ وہ ہر شے پر گواہ ہے‘‘۔ (حم السجدہ: 53)
انسانی دماغ میں 86 ارب نیورونز ہیں۔ ان کے درمیان رابطہ کاری کا کام جو نیورونز کرتے ہیں‘
یاد رہے! انسانی وجود کے اندر سب سے بڑا شاہکار انسانی دماغ ہے۔ ان دنوں میں ہم اہلِ پاکستان کیلئے بے پناہ خوشی کی بات ہے کہ اسلامی اور سائنسی دماغ رکھنے والا ایک عالمی سکالر‘ محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب میرے دیس میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں مدعو کیا ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں جرأتمندانہ تقریر کی اور مسئلہ فلسطین کو بھرپور اندا زسے اجاگر کیا۔ اب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب‘ جو محض اللہ کے دین کی خاطر انڈیا کے معتوب اور مہاجر ہیں‘ ان کو پاکستان تشریف آوری کی دعوت دینا حالیہ دنوں میں حکومت کا دوسرا بڑا اقدام ہے۔ اس پر ہم اہلِ پاکستان اپنے وزیراعظم محمد شہبازشریف کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں۔
انسانی دماغ کے بارے میں دنیا بھر کے سائنسدانوں کی ریسرچ میرے سامنے ہے‘ تاہم میں نے فیصلہ کیا کہ جس دیس سے محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دیس نکالا دیا گیا‘ اسی دیس کے ایک دماغی سائنس دان کی ریسرچ اپنے کالم میں پیش کروں۔ اس سائنسدان کا نام ڈاکٹر سوربھ مہروترا (Saurabh Mehrotra) ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں 86 ارب نیورونز ہیں۔ ان کے درمیان رابطہ کاری کا کام جو نیورونز کرتے ہیں‘ وہ ان کے علاوہ ہیں۔ یہ والا ایک نیورون دس ہزار کے قریب نیورونز سے رابطہ کر سکتا ہے۔ رابطہ کاری کا کام سرانجام دینے والے نیورونز کو نیوروگلیا (Neuroglia) نیورون کہا جاتا ہے۔
قارئین کرام! ایک حقیقت جو میں اپنے متعدد کالموں میں بیان کر چکا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ جب دو نیورونز کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے تو وہاں ایک چمک پیدا ہوتی ہے۔یوں سمجھئے جیسے ایک چھوٹا سا بلب روشن ہو جاتا ہے۔ اس چمک یا روشنی کو synapse کہا جاتا ہے۔ غور کیجئے! ہماری زمین پر آٹھ ارب کے قریب انسان موجود ہوں گے۔ یہ انسان گھروں میں ہوں یا فیکٹریوں میں۔ کاریں چلا رہے ہوں یا ہوائی جہازوں میں سفر کر رہے ہوں۔ سب آٹھ ارب سے زیادہ بلب روشن نہیں کر سکتے مگر ان میں سے ایک انسان کے دماغ میں 86 ارب بلب دن رات روشن رہتے ہیں۔ اب آٹھ ارب انسانوں کے دماغوں میں روشن بلبوں کا اندازہ لگائیں۔ کوئی نہیں لگا سکتا۔ میں کہتا ہوں اگر آٹھ ارب انسانوں کے دماغ کی الیکٹرک پاور کو کسی طریقے سے اکٹھا کر لیا جائے تو یہ اتنی بڑی انرجی ہو گی کہ میگاواٹ میں اس کا شمار مشکل ترین بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
ڈاکٹر مہروترا کہتے ہیں:
The human brain memory is indeed a genius thing that we are gifted with. Human brain memory is far away from the imagination of human.
کوئی شک نہیں کہ انسانی دماغ کی یادداشت کا نظام حیران کن ہے جو ہمیں تحفے میں ملا ہے۔ انسانی دماغ کی یادداشت کا جو نظام ہے وہ انسانی اندازوں سے بہت آگے ہے۔ مزید برآں‘ انسان کے دماغ کا جو پچھلا حصہ ہے وہ گردن سے ہو کر ریڑھ کی ہڈی سے گزر کر spine کے آخر تک جاتا ہے۔ یہ ایک زبردست اعصابی نظام ہے جس کے اندرمرکزی اعصابی نظام لاتعداد نیورونز یا نرو سیلز پر انحصار کرتا ہے۔ہر نیورون ہزاروں اطلاعاتی چمکوں یا بلبوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
the central nerves system depends on innumerable neurons of nerve cells. each neuron comprises thousands of synapses.
قارئین کرام! پورے انسانی اعصابی نظام سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانی کا سارا جسم جگمگ کر رہا ہے اور اس نظام کے اندر جو بلب ہیں‘ ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ یہ تو اربوں سے بڑھ کر کھربوں کے ہندسوں کو بھی پار کر جائیں گے۔ یعنی آسمان دنیا میں اربوں‘ کھربوں گلیکسیوں کے اندر جو ستارے روشن ہیں‘ اتنی ہی تعداد میں شاید ایک انسان کے جسم میں بلب پائے جاتے ہیں۔ جب سارے انسانوں کے بلب جمع کیے جائیں گے تو اندازہ ہے کہ آسمان دنیا کے ستارے اور زمین پر آباد انسانوں کے دماغوں اور نیورون سسٹم کے اندر روشن ہونے والے بلب برابر تعداد میں ہو جائیں گے۔ اسی لیے تو ناسا نے دنیاوی آسمان کے ایک انتہائی چھوٹے سے علاقے کی تصویر لی۔ یہ تصویر جو جدیدترین ”جیمز ویب سپیس‘‘ ٹیلی سکوپ کے ذریعے لی گئی ہے‘ اس کے ساتھ انسانی دماغ کی ایک تصویر رکھی گئی۔ دونوں تصویریں ایک جیسی دکھائی دیتی تھیں۔ بتایا نہ جائے تو پہچان مشکل ہو جائے کہ کون سی تصویر انسانی دماغ کی ہے اور کون سی دنیاوی آسمان کے ایک حصے کی‘ جو محدود کہکشائوں اور ان کے جھرمٹوں کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔
بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا قصور اور جرم یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے ریسرچرز اہلِ دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ جو کائنات بنانے والا ایک خالق ہے‘ وہی انسان کا خالق و مالک ہے۔ اے لوگو! آگے بڑھو۔ تحقیق کرو اور اس رب پر ایمان لائو۔ آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر آخری کتاب قرآن مجید نازل ہوئی۔ ساڑھے چودہ سوسال قبل اس کتاب نے بتا دیا کہ کائناتی آفاق میں دیکھو یا انسانی جسم کے اندر جھانک کر دیکھو‘ دوربین استعمال کرو یا خوردبین استعمال کرکے انسانی دماغ میں جھانکو یا اس کے نرو سسٹم میں دیکھو۔ ہر جگہ اتنے بڑے نظام کو کون تھامے ہوئے ہے؟ اسی قرآن کی آیت الکرسی کو پڑھ کر دیکھو تو آخری رسول حضور نبی کریمﷺ پر نازل ہونے والی کتاب بتاتی ہے کہ اس نظام کو وہی قائم رکھے ہوئے ہے جس کا نام ”القیوم‘‘ ہے۔ اور اس طرح وہ اس نظام کو قائم رکھے ہوئے ہے کہ وہ عرش پر ہوتے ہوئے ہر نیورون اور ان کے synapses یعنی بلبوں کو دیکھ رہا ہے۔ ان کے درمیان سوچوں اور غورو فکر کو دیکھ رہا ہے۔ وہ سوچ اور فکر ابھی زبان سے ادا ہو کر فضا میں اپنا وجود بھی نہیں بناتی کہ اپنے خالق اللہ کے سامنے پہلے سے موجود ہوتی ہے ۔ وہ اس پر اور ہر شے پر شاہد ہے
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دلائل دیکھ کر انڈیا کے لاکھوں لوگ مسلمان ہو گئے۔ وہ دھڑا دھڑ مسلمان ہو رہے تھے کہ انڈیا کی مودی حکومت نے مذہبی تعصب میں مبتلا ہو کر ڈاکٹر صاحب کو پردیسی بنا دیا۔ مہاجر بنا دیا۔ جدید دنیا میں علم کے اس مہاجر کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں کہ جس نے حضور کریمﷺ کے عطا کردہ علم کو سائنسی دلائل کے ساتھ روشن کیا تو اہلِ ہند کے دماغ روشن ہو گئے۔ اسی روشنی نے جناب نریندر مودی کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ ان کا خوف جلد دور ہو جائے۔
تحریر :مولانا امیر حمزہ
Leave a Reply