چرچ میں نماز کی دعوت

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا تو اس کے کوئی تین سو سال بعد مشرقی رومی سلطنت کے بادشاہ قسطنطین نے مسیحی مذہب قبول کر لیا۔ رعایا نے بھی بادشاہ کی پیروی میں یہ مذہب قبول کر لیا۔ تمام بت ڈھا دیے گئے اور صنم کدے گرجے بنا دیے گئے۔ اسی بادشاہ نے اپنے نام پر قسطنطنیہ نام کا ایک شہر بسایا جو اس کی سلطنت کا دارالحکومت بنا۔ آج کل یہ شہر استنبول کہلاتا ہے‘ جو ترکیہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بادشاہ قسطنطین نے موجودہ مشرق وسطیٰ کے تمام ملکوں مصر‘ شام‘ لبنان‘ اسرائیل‘ فلسطین اور اردن کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا تھا۔ ان تمام علاقوں کی بیشتر آبادی مسیحی ہو چکی تھی۔ بادشاہ کی والدہ ایک راہبہ خاتون تھیں جنہیں سینٹ یعنی ‘ولی‘ کا درجہ حاصل تھا۔ ان کا نام ہیلینا (Saint Helena)تھا۔ اس زمانے میں یہودیوں کو یروشلم سے نکالا جا چکا تھا اور اس شہر میں ان کے داخلے پر پابندی تھی۔

بادشاہ نے اپنی والدہ کو یروشلم بھیجا کہ جس جگہ (عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا‘ اس جگہ کو تلاش کرکے وہاں ایک گرجا بنایا جائے؛ چنانچہ سینٹ ہیلینا یروشلم پہنچیں اور وہاں انہوں نے ایک عظیم الشان چرچ بنوایا۔ یہ چرچ 326ء میں بنوایا گیا اور یہاں لکڑی کے دو دروازے آج بھی وہی ہیں جو محترمہ ہیلینا نے لگوائے تھے۔

یہاں ایک پتھر بھی ہے کہ مسیحی روایات کے مطابق جس پر مصلوب کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لاش کو رکھا گیا تھا۔ یہاں چودہ سٹیشن بنائے گئے ہیں اور ہر سٹیشن یعنی مقام کی ایک تاریخ ہے۔ مثال کے طور پر پہلا سٹیشن وہ ہے جہاں حضرت مسیح کے خلاف یہود نے موت کا فتویٰ دیا تھا۔ 2۔حضرت مسیح اپنی صلیب اٹھاتے ہیں۔ 3۔صلیب کے بوجھ تلے گر پڑتے ہیں۔ 4۔غم سے نڈھال حضرت مریم راستے میں ملاقات کرتی ہیں۔ 5۔حضرت مسیح کا حواری شمعون کرینی صلیب اٹھانے میں سہارا فراہم کرتا ہے۔ 6۔ایک مبلغہ ویرونیکا (St. Veronica) حضرت مسیح کا چہرہ رومال سے صاف کرتی ہے۔ 7۔جناب مسیح صلیب کے بوجھ سے دوسری مرتبہ گرتے ہیں۔ 8۔حضرت مسیح رونے والی عورتوں کو تسلی دیتے ہیں۔ 9۔صلیب سے تیسری دفعہ گرتے ہیں۔ 10۔سیاہ کپڑے اتارتے ہیں۔ 11۔جسم کو صلیب پر کیلوں سے نصب کیا جاتا ہے۔ 12۔جناب مسیح مصلوب ہو جاتے ہیں۔ 13۔لاش کو اتار کر ان کی والدہ مریم کی گود میں رکھا جاتا ہے۔ 14۔لاش قبر میں اتار دی جاتی ہے۔ (واضح رہے کہ متفقہ اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر نہیں چڑھایا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ ہی آسمانوں پر اُٹھا لیا اور قیامت سے قبل وہ دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے)


قارئین کرام! مذکورہ چرچ کو بنے ہوئے تین صدیاں گزر جاتی ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مشرق وسطیٰ کے مذکورہ سارے علاقے فتح کر لیتے ہیں۔ یروشلم کی چابیاں ان کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔ حضرت عمرؓ یروشلم میں دس دن قیام فرماتے ہیں اور یروشلم کا سابق حکمران اور مسیحی عالم پیٹریارچ سوفرونیوس (Patriarch Sophronius) حضرت عمرؓ کو دعوت دیتا ہے کہ چرچ ”القیامۃ‘‘ کا وزٹ بھی کریں۔ حضرت عمرؓ یہاں تشریف لاتے ہیں‘ سوفرونیوس تمام مقامات سے حضرت عمرؓ کو آگاہ کرتا ہے۔ امیر المؤمنین سنتے جا رہے ہیں اور اپنے مفتوح کی دلجوئی کی خاطر سب کچھ دیکھتے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ حقیقت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے ذریعے بتا دی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ”(یہود کا) یہ جرم کہ انہوں نے (اللہ سے کیا ہوا) عہد توڑ دیا۔ اللہ کی آیات (جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات پر مبنی تھیں‘ ان) کا انکار کیا۔ نبیوں کو ناحق قتل کیا اور اب (آخری رسول حضور نبی کریمﷺ کو بھی) یہ کہہ دیا کہ ہمارے دل (آپ کی دعوت کو تسلیم کرنے سے) پردے میں ہیں۔

(ان جرائم کی وجہ سے) اللہ نے ان کے دلوں پر (قبولِ حق کے انکار کی) مہر لگا دی ہے۔ لہٰذا یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہاں! اکا دُکا ایمان لا سکتے ہیں۔ الغرض! یہ لوگ اپنے کفر میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ مریم پر بہت بڑا بہتان لگا دیا۔ پھر ان کا یہ کہہ دینا (کس قدر بڑا جرم ہے کہ) ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو قتل کیا ہے جو اللہ کے رسول ہیں‘ حقیقت کے برعکس ہے کہ نہ یہود نے عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ ہی ان کو صلیب پر چڑھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا واقعہ ان کے لیے شک وشبہے کا باعث بنا دیا گیا (کیونکہ اللہ اپنے رسول کو قتل نہیں ہونے دیتا) وہ (مسیحی) لوگ جنہوں نے اس واقعے میں (مختلف مؤقف اپنا کر باہم) اختلاف کیا وہ اس بارے میں شک کا شکار ہیں۔ یہ لوگ وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں (حقیقت کا ان لوگوں کو کچھ بھی علم نہیں)۔ یقینی علم یہ ہے کہ ان لوگوں نے عیسیٰ کو بالکل قتل نہیں کیا (بلکہ ان کے دھوکے میں کسی اور کو قتل کیا ہے) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اس (عیسیٰ علیہ السلام) کو اپنی جانب (آسمان کی طرف) اٹھا لیا۔ سمجھنا چاہیے کہ اللہ (ہر کسی کے پلان پر) غالب بھی ہے اور حکمت والا بھی ہے۔ (ہم بتائے دیتے ہیں کہ وقت آنے پر) اہلِ کتاب کا کوئی فرد باقی نہیں رہے گا مگر عیسیٰ پر ایمان لا کر رہے گا (وہ آسمان سے زمین پر اتریں گے تو ان کی موت سے پہلے یہ ہو کر رہے گا‘ جو لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی بات کرتے اورجو ان کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں‘ ان کی آمد پر اپنا عقیدہ ٹھیک کر لیں گے اور آخری رسولﷺ کا کلمہ پڑھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضورﷺ کی شریعت کا پیروکار مانیں گے) اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔ (النسآء: 155تا 159)۔


آج مسیحی لوگوں کا ایک گروہ جو حکمران اور دنیا کی طاقت کا مالک ہے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن یہود کو اپنا جگری دوست بنا چکا ہے۔ یہود نے ان کا عقیدہ بدل کر انہیں یہ باور کرا دیا ہے کہ جب تک اسرائیل کی سرحدیں نیل سے فرات تک اور بحرِ ابیض سے ایلات (Eilat) کے نیچے تک نہیں جائیں گی تب تک جنابِ مسیح کا نزول نہیں ہو گا۔ اسرائیل کی پشت پناہ طاقتیں اسی دھوکے میں سہولت کاری کر رہی ہیں۔ غزہ میں 50 ہزار مسلمان تہِ تیغ ہو چکے۔ ایک ہزار سے زائد مسجدیں اور کتنے ہی گرجے ملیامیٹ ہو چکے۔ جنوبی لبنان میں چار ہزار مسلمان شہید کر دیے گئے۔ مسلمانوں کی باہمی چپقلش اور لڑائیوں کی وجہ سے اسرائیل نے اب شام پر قابض ہونا شروع کر دیا ہے۔ مسجد اقصیٰ اورقبتہ الصخرہ خطرے میں آ گئے ہیں۔ قبلۂ اول اپنے وجود کے ساتھ تزلزل میں ہے۔ معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو عالمی امن خطرے میں پڑ جائے گا۔
حضرت فاروق اعظمؓ کی نظر نے عالمی خطرے کو کیسے بھانپ لیا اور انسانیت کو امن کی راہ پر کیسے ڈال دیا‘ اس حقیقت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ نے گرجا القیامۃ کے دورے کے دوران سوفرونیوس سے پوچھا کہ میں نماز کہاں ادا کروں؟ سوفرونیوس نے کہا: اسی جگہ پر (گرجے میں) نماز پڑھ لیں۔ اس پر آپؓ نے کہا: عمر کا یہ حق نہیں کہ وہ یہاں نماز پڑھے (خدشہ ہے کہ) میرے بعد مسلمان آئیں گے اور وہ کہیں گے یہاں عمر نے نماز پڑھی لہٰذا وہ یہاں مسجد بنا ڈالیں گے‘‘۔ (تاریخ طبری‘ ج:3‘ ص: 609، ابن خلدون: 2/225)۔ حضرت عمرؓ گرجے سے باہر نکلے اور ایک پتھر اٹھا کر دور پھینکا۔ جہاں جا کر وہ پتھر گرا‘ وہاں جا کر آپؓ نے ظہر کی نماز ادا کی۔ لوگو! یہ پیغام تھا اس بات کا کہ مذکورہ گرجے کی حیثیت کو بدلنے کیلئے جو پتھر اس جانب آئے گا عمر اس انتہا پسندی کو پتھر مار رہا اور اس گرجے کا دفاع کر رہا ہے کہ کسی کی عبادت گاہ کو مسمار نہیں ہونا چاہیے‘ اس سے انسانیت باہم لڑ لڑ کر تباہ ہو جائے گی اور دنیا کا امن غارت ہو جائے گا۔ لہٰذا حضرت عمرؓ کی فراست نے گرجے میں نماز پڑھنے کی دعوت قبول نہیں کی۔ میں کہتا ہوں۔ ”عمر لاء‘‘ کا اپنے ممالک میں نفاذ کرنے والو! عمرؓ کے مسجد لاء کا تحفظ نہ کیا گیا تو انسانیت کے وجود کا تحفظ ناممکن اور نابود ہو جائے گا۔ف

تحریر:مولانا امیر حمزہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.